جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد تمام یرغمالوں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ تاہم کچھ یرغمال ایسے بھی تھے جو دہشتگردوں کی تحویل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ مرتضیٰ زہری نے ایسے کچھ سروائیورز سے بات کی ہے۔ سنتے ہیں جمشید اجمل نامی نوجوان کی روداد ان کی اپنی زبانی
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کی ذمے داری کالعدم عسکری تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔ یہ تنظیم کیسے قائم ہوئی اور یہ اتنی بڑی کارروائیاں کیسے کر رہی ہے؟ جانتے ہیں محمد ثاقب کی رپورٹ میں۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہناہے کہ ٹرین پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا یہ واقعہ کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور عسکری حکمتِ عملی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
بازیاب ہونے والے مسافر بشیر احمد کے بقول "ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ اترو اور پیچھے مڑ کر مت دیکھنا ۔ میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ہمراہ ٹرین سے اترا اور کئی کلو میٹر پیدل سفر کیا۔"
جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر کالعدم بی ایل اے کا نام زیرِ بحث ہے۔ یہ تنظیم بلوچستان میں ہونے والے متعدد حملوں سمیت صوبے سے باہر کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینچ اور چین کے قونصل خانے پر حملوں میں بھی ملوث رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تمام 33 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
بلوچستان میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر مسلح افراد کے حملے میں ڈرائیور زخمی ہوا ہے جب کہ بڑی تعداد میں مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ یرغمالوں کی بازیابی کے لیے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ مزید تفصیلات بتا رہے ہیں کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری۔
پاکستان اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ افغانستان میں 20 سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جس کابل، خطے اور دنیا کی سلامتی اور استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
دوسری جانب بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کا دعویٰ سامنے آیا ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ جعفر ایکسپریس اور یرغمالوں پر ان کا اب بھی مکمل کنٹرول ہے اور 214 افراد ان کی تحویل میں ہیں۔ ان 214 مسافروں کو جنگی قیدی قرار دیتے ہوئےترجمان نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔
ماہر معاشیات محمد طلحہ کہتے ہیں کہ پاکستان اس وقت اپنے پچیسویں آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بار بار بیل آؤٹ پروگرامز ملک کے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
مزید لوڈ کریں
No media source currently available