ویب ڈیسک _ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے صرف آئی ایم ایف پروگرام کافی نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلام آباد کا بیجنگ پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔
چین نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں پاکستان کے لیے دو ارب ڈالر قرض مزید ایک سال کے لیے رول اوور کردیا ہے۔ یعنی قرضوں کی واپسی مزید ایک سال کے لیے مؤخر کر دی ہے۔
یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ چین پاکستان کو دیا گیا قرضہ رول اوور کر رہا ہے۔ماہرین کے بقول اقتصادی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے یہ رقم پاکستان کے لیے کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فِچ کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کا کُل واجب الادا قرضہ 22 ارب ڈالر سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ایسے میں چینی قرضہ رول اوور ہونے سے اسلام آباد کو غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی اور اس سے روپے کی قدر میں استحکام آئے گا۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عبدالعظیم کے مطابق پاکستان کا چین پر مالی اور معاشی انحصار کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالعظیم نے کہا کہ حکومت نے توانائی کے شعبے میں 16 ارب ڈالر کے قرضوں کی تنظیمِ نو کی کوششوں اور چار ارب ڈالر نئے قرض کی سہولت حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کیے ہیں جو پاکستان کی چینی قرضے سے ڈیفالٹ سے بچنے کی کوششوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان کے بقول وزیرِ اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں چینی قیادت کو خط لکھا ہے جس کے باوجود اسلام آباد کو چین سے توانائی کے شعبے میں ملنے والے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کروانے میں اب تک کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔
قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ سے مراد قرضوں کی ادائیگی میں اس طرح کی تبدیلی لانا ہے جس سے قرضوں کی کُل حجم میں کوئی کمی واقع ہو اور یہ درخواست عام طور پر وہ ممالک کرتے ہیں جو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوں۔
واضح رہے کہ پاکستان اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے صرف چین ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب دیکھنے پر بھی مجبور ہے۔
اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام میں بھی شامل ہے جس کے تحت پاکستان کو تین سال میں سات ارب ڈالرز ملنے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں شروع ہونے والے اس پروگرام میں پاکستان کو ایک ارب ڈالرقرض کی ادائیگی کے بعد ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط کے لیے آئی ایم ایف کا جائزہ جاری ہے۔
ایک مقامی بروکریج ہاؤس سے تعلق رکھنے والے ماہر معاشیات محمد طلحہ کہتے ہیں کہ پاکستان اس وقت اپنے پچیسویں آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بار بار بیل آؤٹ پروگرامز ملک کے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس بار حکومت کو آئی ایم ایف حکام کو مطمئن کرنے کے لیے کافی سخت فیصلے کرنا پڑے ہیں جس سے ملک میں مختلف طبقات بالخصوص تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھائی گئی، لیکن اب تک ان سخت فیصلوں کے اثرات سے ملک میں معاشی بہتری شروع نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے روایتی طور پر آئی ایم ایف اور مغربی ممالک کے زیر اثر دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے مالی تعاون حاصل کرنے کے ساتھ گزشتہ ایک دہائی میں چین کی جانب بھی دیکھنا شروع کیا ہے۔
ان کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ جاری قرض پروگرام میں ہونے کے باوجود پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن میں دباؤ کا سامنا رہے گا۔ کیوں کہ ملک کے بیرونی قرضوں میں تقریباً 30 فی صد چین اور چینی کمرشل بینکوں کے واجبات ہیں۔ جب کہ پاور سیکٹر میں چینی قرضے ان اعداد و شمار کے علاوہ ہے۔
محمد طلحہ کہتے ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت لگائے گئے کئی ارب ڈالرز کے منصوبوں میں چین نے سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشی نمو کم ہونے کی وجہ سے پاکستان اب بھی اس قابل نہیں کہ یہ بھاری قرض واپس لوٹاسکے۔
'کمزور بارگیننگ پوزیشن چینی مطالبات میں اضافے کا باعث بنتی ہے'
محمد طلحہ کے بقول ایسی صورت میں حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ یا تو ادائیگیوں کےلیے عائد شرائط کو کم کرنے یا اضافی قرض تک رسائی کے لیے چینی قیادت سے بات چیت کی جائے لیکن ان کے بقول، کمزور بارگیننگ پوزیشن کی وجہ سے یہ بات چیت مختلف شعبوں بالخصوص سلامتی کے شعبے میں چینی مطالبات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کی وجہ پالیسی کی ناکامیاں اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مستقل اور طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
ڈاکٹر عبدالعظیم کے خیال میں اگرچہ آئی ایم نے پاکستان کی معیشت سے متعلق پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان آئی ایم ایف کے ذریعے فنڈنگ پر انحصاف بڑھا رہا ہے کیوں کہ پالیسی ساز ادائیگیوں کے تاریخی توازن کو مستحکم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت پر آئی ایم ایف کے قرضوں کے کچھ قلیل مدتی استحکام کے اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں لیکن معیشت میں طویل المدت بہتری کے اثرات کم نظر آتے ہیں۔
فورم