رسائی کے لنکس

جعفر ایکسپریس حملہ: 100 سے زیادہ مسافر بازیاب 16 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی ذرائع


  • بلوچستان میں مشکاف کے قریب جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملہ کے بعدسیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 104 افراد کو بازیاب کروالیا گیا ہے۔
  • سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک 16 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ 17 زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
  • ڈی ایس ریلوے عمران حیات نے جعفر ایکسپریس حملے میں ٹرین ڈرائیور کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
  • 104 یرغمال مسافروں کو سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں سے رہا کروایا، سیکیورٹی ذرائع
  • رہا ہونے والوں میں 58 مرد، 31 خواتین اور 11 بچے شامل ہیں، سیکیورٹی ذرائع
  • حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ جعفر ایکسپریس اور یرغمالوں پر ان کا اب بھی مکمل کنٹرول ہے اور 214 افراد ان کی تحویل میں ہیں۔
  • بی ایل اےنے ان 214 مسافروں کو جنگی قیدی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تنظیم قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔
  • بی ایل اے نے خبردار کیا ہے کہ یرغمالوں کی بازیابی کے لیے آپریشن کے سنگین نتائج ہوں گے

بلوچستان میں مشکاف کے قریب جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملہ کے بعدسیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 104 افراد کو بازیاب کروالیا گیا ہے۔ جن افراد کو بازیاب کروایا گیا ان میں 58 مرد، 31 خواتین اور 15 بچے شامل ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اب تک 16 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ 17 زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

دوسری جانب بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کا بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ جعفر ایکسپریس اور یرغمالوں پر ان کا اب بھی مکمل کنٹرول ہے اور 214 افراد ان کی تحویل میں ہیں۔

بی ایل اےنے ان 214 مسافروں کو جنگی قیدی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تنظیم قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔بقول انکے"پاکستانی حکام کو 48 گھنٹوں کی مہلت دی جاتی ہے کہ بلوچ سیاسی اسیران، جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد اور قومی مزاحمتی کارکنان کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔"

دہشتگردی کے اس واقعہ سے متعلق پاکستان فوج کی طرف سے کوئی بیان اب تک جاری نہیں کیا گیا البتہ بعض معلومات عسکری زرائع سے فراہم کی گئی ہیں جن میں متاثرہ مقام پر آپریشن کا بتایا گیا ہے لیکن اس علاقہ میں آزاد ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے معلومات صرف ذرائع یا پھر بی ایل اے کی طرف سے جاری کی جارہی ہیں جن کی مکمل تصدیق ابھی نہیں ہوپائی۔

کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس کو بلوچستان لبریشن آرمی کے عسکریت پسندوں نے جس مقام پر ہائی جیک کیا وہ ہے مشکاف۔ یہ گاوٴں ضلع سبی سے تقریباً 26 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ کوئٹہ سے یہ جگہ تقریباً 140 کلومیٹر دور ہے۔

مشکاف ایک گاوٴں ہے اور اس کا ریلوے اسٹیشن بلوچستان کے کچھی کے ضلع میں واقع ہے۔ٹرین پر حملے کا واقعہ مقامی وقت کے مطابق دن ایک بجے کے قریب ضلع سبی کے اسٹیشن کے قریب پیش آیا۔ ٹرین صبح نو بجے کے قریب کوئٹہ سے پشاور کے لیے روانہ ہوئی تھی۔

سبی کے ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاتھا کہ ٹرین پہاڑوں میں ایک سرنگ کے سامنے رکی ہوئی ہے۔

رہائی پانے والے مسافر

جعفرایکسپریس حملے کے بعد رہائی پانے والے افراد کو بحفاظت مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچا دیا گیا ہے۔حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ افراد کو مچھ اسٹیشن پر کھانا فراہم کیا گیا ہے اور وہ وہاں کچھ دیر آرام کریں گے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی کلیئرنس کے بعد مچھ اسٹیشن سے مسافروں کو کوئٹہ منتقل کیا جائے گا۔

بولان کے ایک لیویز اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ افراد کو جب کالعدم تنظیم بی ایل اے نے رہا کیا تو انہوں کئی کلومیٹر دور تک پیدل سفر کیا۔اور وہ بڑی مشکل سے امدادی ٹرین تک پہنچے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ رہائی پانے والے مسافروں کو ایک مال بردار ٹرین کے ذریعے مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچایا گیا۔

مچھ ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے والے افراد کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا کہ مسافروں کو مال برادر گاڑیوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔

مچھ کے ایک مقامی صحافی نے نام نہ بنانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسافر یرغمال کئی کلومیٹر کا پیدل سفر کرنے کے باعث تھکن سے نڈھال تھے۔

ڈی ایس ریلوے عمران حیات نے جعفر ایکسپریس حملے میں ٹرین ڈرائیور کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

ریلوے اسٹیشن پر بڑی تعداد میں لواحقین اپنے پیاروں خیریت دریافت کرنے پہنچے تھے۔ایک پولیس اہلکار غلام دستگیر کے والد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے بھی اس ٹرین میں تھے جس پر بولان میں حملہ ہوا۔ انہوں نے حکام سے اپیل کی کہ وہ انکے بیٹے کےمتعلق معلومات فراہم کریں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔

پاکستان کی حکومت کی طرف سے اس حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور صدر ، وزیراعظم اور وزیرداخلہ سمیت بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور دیگرحکام نے اس واقعہ کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مجرمان کو انجام تک پہنچانے کا کہا ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے ایک بیان میں کہا کہ نہتے شہریوں اور مسافروں پر حملے غیر اِنسانی اور مذموم عمل ہے، مسافروں پر حملے کرنے والے بلوچستان اور اسکی روایات کے خلاف ہیں بلوچ قوم نہتے مسافروں، بزرگوں اور بچوں پر حملے کرنے اور یرغمال بنانے والوں کو مسترد کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ کوئی مذہب اور معاشرہ ایسی گھناؤنی کاروائیوں کی اجازت نہیں دیتا،

وزیراعظم شہباز شریف نے حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف جاری کاروائی میں دشوار راستوں کے باوجود آپریشن میں شامل سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے حوصلے بلند ہیں. ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز بروقت کاروائی اور بہادری سے بزدل دہشتگردوں کو پسپائی کی جانب دھکیل رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بزدلانہ حملہ کرنے والے بلوچستان کی ترقی کے دشمن ہیں۔

وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نےاظہار افسوس کرتے ہوئے بلوچستان حکومت سےمکمل یکجہتی کااظہارکیا اور ہر ممکن معاونت کی یقین دہانی کروائی، بیان کے مطابق وزیرداخلہ محسن نقوی کا وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی سے مسلسل رابطہ ہے اور ان رابطوں میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تمام ضروری وسائل بروئے کار لانے کے عزم کااعادہ کیا گیا ۔

محسن نقوی نے کہا کہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے صوبائی حکومت کو ہر طرح کا تعاون فراہم کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ دہشتگردوں اور سہولت کاروں کے خاتمے کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر کہا ہے کہ بولان میں تاحال سرچ آپریشن جاری ہے۔ جعفر ایکسپریس پر بزدلانہ حملہ ہماری قومی سلامتی پر حملہ ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG