|
نئی دہلی -- حزبِ اختلاف کی جماعت سماجوادی پارٹی کے رہنما کی جانب سے مغل حکمراں اورنگزیب کے بارے میں دیے گئے بیان سے پیدا شدہ تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اب اورنگزیب کی قبر کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
مہاراشٹر کے وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس نے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابقہ کانگریس حکومت نے ان کی قبر کو محکمہ آثارِ قدیمہ کے حوالے کرکے اسے محفوظ یادگار کا درجہ دے دیا ہے لہٰذا قبر کو ہٹانے کے لیے قانون کا سہارا لینا پڑے گا۔
'بھارتیہ جنتا پارٹی' (بی جے پی) کے مہاراشٹر سے رکن پارلیمان ادین راجے بھوسلے جو مراٹھا حکمراں چھترپتی شیوا جی کے ورثا میں ہیں۔ اورنگزیب کے مزار کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے مطابق اورنگزیب کی 'عزت افزائی' کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب تین مارچ کو حزبِ اختلاف کی جماعت سماجوادی پارٹی کی مہاراشٹر شاخ کے صدر اور رکنِ اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے ایک بیان میں اورنگزیب کی ستائش کی تھی اور کہا تھا کہ انھوں نے کئی مندر بنوائے تھے۔
ان کے بقول اورنگزیب ظالم حکمراں نہیں تھے۔ ان کے اور سمبھاجی مہاراج کے درمیان ہونے والی لڑائی اقتدار کے لیے تھی، وہ ہندو مسلم لڑائی نہیں تھی۔ اورنگزیب کی قبر مہاراشٹر میں اورنگ آباد (نیا نام سمبھاجی مہاراج نگر) سے 25 کلومیٹر دور خلد آباد میں واقع ہے۔
اورنگزیب کی ہدایت کے مطابق اس پر نہ تو کوئی گنبد تعمیر کیا گیا اور نہ ہی اسے مقبرے کی شکل دی گئی ہے۔ ان کا انتقال 87 سال کی عمر میں 1707 میں ہوا تھا۔ وہیں ان کی اہلیہ 'بی بی کا مقبرہ' بھی موجود ہے۔
قبر ڈھانے کے مطالبات
بی جے پی کی سابق رکن پارلیمان نونیت رانا نے بھی اس کا مطالبہ کیا اور ریاستی حکومت سے کہا کہ جس طرح اورنگ آباد کا نام بدل کر شیوا جی کے فرزند سمبھاجی مہاراج کے نام پر کر دیا گیا ہے اسی طرح اورنگزیب کی قبر کو بھی ڈھا دیا جائے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اورنگزیب کے دورِ حکومت میں بھارت کی سرحدیں افغانستان اور برما تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس وقت بھارت کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 24 فی صد تھی۔ بھارت کو 'سونے کی چڑیا 'کہا جاتا تھا۔
ان کے اس بیان پر بی جے پی اور شیو سینا کی جانب سے شدید ردِعمل ہوا اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ انھیں 26 مارچ تک چلنے والے اسمبلی اجلاس کے لیے معطل کر دیا گیا۔ نائب وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شنڈے نے کہا کہ انھیں جیل بھیجا جائے گا۔ اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسمبلی میں ان کے خلاف بیان دیا۔
تنازع پیدا ہونے کے بعد ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا وہ تاریخ دانوں نے لکھا ہے۔ انھوں نے شیواجی یا سمبھا جی مہاراج کے بارے میں توہین آمیز بات نہیں کہی۔ تاہم اگر ان کے بیان سے کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ بیان واپس لیتے اور معذرت چاہتے ہیں۔
سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ابو عاصم کا دفاع کیا اور کہا کہ اگر کسی نظریے کی بنیاد پر ایوان سے ان کی معطلی ہوئی ہے تو پھر اظہار کی آزادی اور غلامی میں کیافرق رہ گیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایوان سے معطل کرکے سچائی کا گلا گھونٹا جا سکتا ہے تو یہ بچگانہ خیال اور منفی سوچ ہے۔
'500 سال پرانے معاملے پر سیاست بے معنی ہے'
کانگریس کے سینئر رہنماؤں اور سابق مرکزی وزرا اُدِت راج اور راشد علوی نے ابو عاصم اعظمی کی حمایت کی اور کہا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کہا۔ اورنگزیب اچھے تھے یا برے، 500 سال کے بعد بھارت میں اس کی کیا معنویت رہ جاتی ہے۔ اس معاملے پر سیاست کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی نئی دہلی میں تاریخ کی استاد پروفیسر تنوجہ کوٹھیال کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کے اقدامات کو ان کے عہد کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اورنگزیب ہوں یا دوسرے حکمراں، انھوں نے اس وقت جو اقدامات کیے کیا وہ نئے اور الگ قسم کے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ اورنگزیب نے مندر توڑے اور مندروں کو جاگیریں بھی دیں۔انھوں نے مسجدوں کو بھی مالی تعاون دیا تھا۔ ان کے یہ اقدامات اس عہد کے مطابق تھے۔
ان کے خیال میں اورنگزیب پر یہ الزام ہے کہ ان کے حکم سے گیان واپی مسجد وارانسی اور کرشن جنم مندر متھرا کو منہدم کیا گیا۔ لیکن تاریخ دانوں کے مطابق ان کے یہ اقدامات سیاسی تھے نہ کہ مذہبی۔
تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے معروف ٹی وی پینلسٹ مولانا عبد الحمید نعمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سرکردہ تاریخ داں سر جادو ناتھ سرکار اورنگزیب کے سب سے بڑے ناقد اور سوانح لگار ہیں۔ انھوں نے پانچ جلدوں میں ـ 'ہسٹری آف اورنگزیب' لکھی ہے۔ دیگر متعدد مؤرخین نے بھی ان کے بارے میں لکھا ہے۔
ان کے مطابق ان کتب میں اورنگزیب اور ان کی حکمرانی کی تعریف کی گئی ہے۔ مسلم اور غیر مسلم کسی بھی تاریخ داں نے اپنی کتاب میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ اورنگزیب نے ہندو مذہب کو مٹانے کی قسم کھائی تھی جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول سرجادو ناتھ سرکار نے ان پر سخت تنقید کے ساتھ ساتھ ان کو ایک بڑے خطے پر حکومت کرنے والا ایک خاص قسم کا حکمراں بھی قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس دور کو آج کے تناظرمیں دیکھنا غلط ہے۔
حال ہی میں اورنگزیب کے مزار کا دورہ کرنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار معصوم مرادآبادی اڑیسہ کے سابق گورنر بی این پانڈے کی کتاب ـ 'ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات' کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اورنگزیب نے مندروں کو جاگیریں عطا کی تھیں۔
ان کے مطابق بی این پانڈے نے مذکورہ کتاب میں الہ آباد کے سومیشور ناتھ مہادیو مندر کی دستاویزات کی روشنی میں لکھا ہے کہ اورنگزیب نے اس مندر اور دیگر مندروں کو پوجا وغیرہ کے لیے جاگیریں دی تھیں۔ بی این پانڈے الہ آباد میونسپلٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بی این پانڈے نے اس سلسلے میں فارسی کے عالم سر تیج بہادر سپرو کی جانب سے بنارس کے جنگم باڑی شیو مندر کی دستاویزات دکھائے جانے کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں اورنگزیب کے چار فرامین شامل ہیں۔ ان کاغذات کے مطابق اورنگزیب نے مندروں کو زمینیں عطا کی تھیں۔
مبصرین کے مطابق مہاراشٹر کے عوام مراٹھا حکمراں شیواجی مہاراج اور ان کے بیٹے سمبھا جی مہاراج سے خاص عقیدت رکھتے ہیں اور ان سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں۔ اورنگزیب کی حکومت کو ان کی افواج اورمراٹھوں کے مابین خوں ریز لڑائیوں کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تاریخی واقعات کے مطابق مغل افواج نے 1689 میں سمبھا جی مہاراج کو گرفتار کیا تھا اور انھیں زدوکوب کیے جانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اس لیے وہاں اورنگزیب کے خلاف نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق سب سے پہلے شیو سینا کے بانی رہنما بال ٹھاکرے نے مغلوں اور مراٹھوں کے درمیان جنگ کے معاملے کو اٹھایا تھا اور مسلمانوں کو اورنگزیب کے برابر قرار دیا تھا۔ انھوں نے اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جس کی وجہ سے مہاراشٹر میں شیو سینا ایک سیاسی قوت بن کر ابھری۔
رواں سال ریلیز ہونے والی تاریخی ایکشن فلم ’چھاوا‘ نے، جو کہ سمبھاجی مہاراج کی زندگی پر مبنی ہے، تنازعے کو مزید ہوا دی۔ فلم میں وکی کوشل نے سمبھاجی مہاراج اور اکشے کھنہ نے اورنگزیب کا کردار نبھایا ہے۔
فورم