تجزیہ کاروں کے بقول اگر چہ شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے رشتوں میں کشیدگی آگئی ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان فوجی رشتے بدستور قائم ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ـ'ایکس' پر جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ بلوچ مزاحمت میں شامل کوئی بھی رُکن افغانستان میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا طالبان حکومت کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔
ماہرین کے مطابق سیٹلائٹ انٹرنیٹ بھارت کے پہاڑی، ریگستانی اور بحری علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی کے مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔ اس سے دور دراز کے علاقوں میں طبی اور تعلیمی سمیت کئی قسم کی سہولتیں فراہم کی جا سکیں گی۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ حملہ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر کیا گیا،ترجمان نے کہا کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ طالبان حکومت ماضی میں وہ ایسے تمام تر الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
بھارتی وزارتِ داخلہ نےالگ الگ نوٹی فکیشنز جاری کرکے جموں و کشمیر عوامی مجلسِ عمل اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین پر ملک (بھارت) کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب تین مارچ کو حزبِ اختلاف کی جماعت سماجوادی پارٹی کی مہاراشٹر شاخ کے صدر اور رکنِ اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے ایک بیان میں اورنگزیب کی ستائش کی تھی اور کہا تھا کہ انھوں نے کئی مندر بنوائے تھے۔
مظاہرین نے ان تبتیوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جنہوں نے چین کے خلاف جدو جہد میں اپنی جانیں گنوائیں۔ بھکشو، سر گرم کارکن ، راہباؤں اور اسکول کے بچوں نے ایسے بینرز اٹھا کر پورے قصبے میں مارچ کیا جن پر لکھا تھا ، ’’ تبت کو آزاد کرو‘‘ اور ’’ یادکرو، مزاحمت کرو، واپس جاؤ‘‘
ماہرین کے مطابق بھارت کو امید ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا اور تجارتی معاہدے کے ساتھ محصولات سے بچنے کا کوئی راستہ نکل آئے گا۔
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں قائم غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کی صورتِ حال میں بہتری آئی ہے۔ اس رپورٹ پر تجزیہ کار اور کشمیری کیا کہتے ہیں؟ جانیے سری نگر سے یوسف جمیل اور زبیر ڈار کی اس رپورٹ میں۔
پاکستان نے جنوری کے آخر میں تقریباً 30 لاکھ افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کے لیے ایک منصوبے کی منظوری دی۔ اس منصوبے میں وہ تمام افراد شامل ہیں جنہیں قانونی طور پر پناہ گزین کہا گیا ہے، اس کے علاوہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں میں اپنی منتقلی کے منتظر ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہلکے جنگی طیاروں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نجی شعبے کی خدمات کا فیصلہ خود انحصاری کی جانب ایک قدم ہو گا اور اس سے فوج کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔
مزید لوڈ کریں
No media source currently available