|
درجنوں تبتی مظاہرین نے پیر کے روز نئی دہلی میں چینی سفارت خانے کے باہر مظاہرے کے دوران پولیس کے ساتھ تصادم کیا ۔ بھارت میں جلا وطنی اختیار کرنے والے تبتی لوگ چین کے خلاف اس دن کی یاد میں مظاہرہ کر رہے تھے جب چینی فورسز نے 66 سال قبل ان کی بغاوت کو کچل دیاتھا۔
گزشتہ برسوں کی طرح ، پولیس نے مظاہرین کو سفارت خانے میں داخل ہونے سے روک دیا اور ان میں سے کچھ کو ہاتھا پائی کے بعد مختصر حراست میں رکھا۔ دیلی کے مظاہر ے کے علاوہ، سینکڑوں جلا وطنوں نے شمالی بھارت کے قصبے دھرم شا لہ میں بھی مارچ کیا ، جہاں جلاوطن تبتی حکومت کا ہیڈ کوارٹر اور 89 سالہ روحانی پیشوا دلائی لامہ کی رہائش گاہ ہے ۔
بھارت تبت کو چین کا حصہ سمجھتا ہے ، اگرچہ وہ جلاوطن تبتیوں کی بھی میزبانی کرتا ہے ۔ 1959 میں آزادی کے لیے بغاوت کی تحریک کو چینی فوج نےکچل دیا تھا اور دلائی لامہ اور ان کے پیروکاروں کو بھارت میں جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
نئی دہلی میں لگ بھگ ایک سو تبتی خواتین پارلیمنٹ کے قریب مظاہروں کے لیے نامزد ایک مقام جنتر منتر میں اکٹھی ہوئیں ۔ مظاہرین نے، جو تبتی پرچم اٹھائے ہوئے تھیں ،چین مخالف نعرے لگائے ، اور تبت اور بھارت کے قومی ترانے بجائے۔
مظاہرین میں سے بہت سوں نے اپنے چہروں پر رنگوں سے تبتی قومی پرچم کو پینٹ کیا ہوا تھا۔ انہوں نے ان تبتیوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جنہوں نے چین کے خلاف جدو جہد میں اپنی جانیں گوائیں۔ سر گرم کارکن ، راہباؤں اور اسکول کے بچوں نے ایسے بینرز اٹھا کر پورے قصبے میں مارچ کیا جن پر لکھا تھا ، ’’ تبت کو آزاد کرو‘‘ اور ’’ یادکرو، مزاحمت کرو، واپس جاؤ‘‘
تبت کی جلاوطن حکومت خود کو سنٹرل تبتی انتظامیہ کہتی ہے۔ اس کے صدر پینپا سیرنگ نے چینی قیادت پر تبتی لوگوں کی اصل شناخت کے خاتمے کے لیے دانستہ اور خطرناک حکمت عملی اختیار کرنے کا الزام عائد کیا۔
مرکزی تبتن ایڈمنسٹریشن کے صدر پینا سیرنگ نےاجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ یہ تبت کی تاریخ کا تاریک ترین اور نازک ترین دور ہے ۔ اب جب ہم تبت کا قومی یوم بغاوت منارہے ہیں، ہم اپنے بہادر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور تبت کے اندر موجود اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں جو مسلسل استبدادی چینی حکومت کے زیر تسلط ہیں‘‘۔
بھارت میں جلا وطن تبتی حکومت چین پرالزام عائد کرتی ہے کہ وہ تبت میں لوگوں کے انتہائی بنیادی انسانی حقوق سےانکار اور تبتی شناخت کو ختم کرنےکی کوشش کررہی ہے ۔
چین کا دعویٰ ہے کہ تبت صدیوں سے اس کے علاقے کا حصہ رہا ہے لیکن تبتی کہتے ہیں کہ ہمالیہ کا یہ علاقہ 1950 میں جب تک اس پر چین نے قبضہ نہیں کیا تھا ، فی الواقع آزاد تھا ۔
دلائی لامہ چین کے اس دعوےکو مسترد کرتے ہیں کہ وہ ایک علیحدگی پسند ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ تبت کی آبائی بودھ ثقافت کی نمایاں خود مختاری اور تحفظ کی حمایت کرتے ہیں ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم