اسلام آباد — پیر 10 مارچ کو مقررہ وقت سے نو منٹ کی تاخیر کے بعد جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو اس وقت اپوزیشن میں شامل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور سنی اتحاد کونسل کے اراکینِ قومی اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ،آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر سروسز چیفس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلی' بھی ایوان غیرحاضر تھے۔
ماضی میں صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران سروسز چیفس مہمانوں کے لیے مختص گیلریز میں آ کر خطاب سنتے رہے ہیں اور جب ایوان میں قومی ترانہ بجایا جاتا تھا تو وہ ترانہ ختم ہونے تک سلیوٹ کی پوزیشن میں کھڑے رہتے تھے۔
یہ دوسرا موقع ہے کہ صدرآصف زرداری کے پارلیمان سے خطاب کے دوران سروسز چیفس موجود نہیں تھے۔
اس سے قبل 18 اپریل 2024 کو صدر نے مشترکہ اجلاس سے پہلا خطاب کیا تھا جس کے دوران بھی سروسز چیف کے ساتھ ساتھ حکومتی جماعت مسلم لیگ کے قائد نواز شریف بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔
صدر آصف زرداری جیسے ہی ایوان میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ آئے تو اجلاس شروع کر دیا گیا ۔
قومی ترانہ ختم ہوتے ہی اپوزیشن اراکین ہاتھوں میں عمران خان کی تصاویر، حکومت کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر نعرے لگاتے ہوئے ایوان میں داخل ہوگئے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے جیسے ہی صدر کو اجلاس کو خطاب کرنے کی دعوت دی تو اپوزیشن نے شور شرابہ، احتجاج اور نعرے بازی شروع کر دی ۔
اپوزیشن لیڈر اپنی نشست پر کھڑے ہوکر قومی اسمبلی کی جانب سے فراہم کی گئی سبز رنگ کی فائل کے ساتھ ڈیسک بجاتے اور نعرے لگواتے رہے ۔
صدر زرداری کو نعروں کی گونج اور سخت شور شرابے کے باعث کانوں پر ہیڈ فون لگا کر خطاب شروع کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود انہیں تحریری خطاب پڑھنے میں دشواری ہو رہی تھی ۔
جب بھی صدر تقریر رک رک کر پڑھنے کی صورتِ حال کا شکار ہوئے تب اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ ان کی جانب نظریں اٹھا کر دیکھ رہے تھے ۔
تحریکِ انصاف کے احتجاج کے باعث وزیرِ اعظم اور حکومتی اراکین نے بھی ہیڈ فونز لگائے ہوئے تھے ۔
صدر کے موجودہ پارلیمنٹ سے دوسرے اور پہلے خطاب میں صرف فرق یہ تھا کہ اپوزیشن نے اسپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوکر احتجاج نہیں کیا۔
اس بار اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کر رہے تھے لیکن پہلے اجلاس میں جس طرح شور شرابے میں سیٹیاں بجائی گئی تھیں اس بار بھی ایسا کیا گیا ۔
صدر نے پیپلزپارٹی کی سابق چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی تصویر ڈائس پر رکھ خطاب کیا۔
صدر کا خطاب سننے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی ایوان میں موجود نہیں تھے ۔
صدر زرداری نے خطاب میں دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کا فیصلہ ہے اور بطور صدر وہ اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔
انہوں نے شہباز شریف کی حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس تجویز کو ترک کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ وفاقی اکائیوں کے درمیان اتفاقِ رائے کی بنیاد پر قابل عمل اور پائیدار حل نکالا جا سکے۔
صدر نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کی مخالفت اس وقت کی ہے جب اس معاملے پر سندھ میں احتجاج ہو رہا ہے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کی کوریج کرنے والے ایک سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ صدر کی جانب سے اس منصوبے کی مخالفت کرنے کے بعد پیپلزپارٹی پر مشکل وقت آ سکتا ہے۔
خطاب میں صدر آصف زرداری نے حکومتی معاشی پالیسیوں کی تعریف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام نے امیدیں پارلیمان سے وابستہ کی ہوئی ہیں۔ ایوان کو عوام کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے۔ ملک کی آبادی کا ڈھانچہ بدل چکا ہے۔ آبادی میں اضافے نے حکمرانی کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
آصف زرداری نے کہا کہ ڈیجیٹل اور انفارمیشن ہائی ویز کی تعمیر، آئی ٹی پارکس میں سرمایہ کاری، انٹرنیٹ تک رسائی، اس کی رفتار بڑھانے اور ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
ان کے مطابق خواتین کی زندگی کے ہر شعبے میں نمائندگی کم ہے۔ مختلف شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھا کر انہیں بااختیار بنانا ضروری ہے۔
ملک میں دہشت گردی کی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ موجودہ اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کے پیشِ نظر سیکیورٹی صلاحیتوں کو مزید مضبوط بنانے، دہشت گردی سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردوں کو جو بیرونی سپورٹ اور فنڈنگ مل رہی ہے اس سے سب واقف ہیں۔ دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ان کے بقول انٹیلی جینس پر مبنی کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کیا گیا ہے۔
صدر نے کہا کہ ہم خلیج اور وسطیٰ ایشیا کے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ سے اپنے دیرینہ تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان حالیہ کامیاب انسدادِ دہشت گردی تعاون حوصلہ افزا ہے۔ دونوں ممالک کو مشترکہ مقاصد کے لیے تعاون کی تجدید اور اضافے کے لیے ان کامیابیوں پر تعلقات کو قائم کرنا چاہیے۔
صدر آصف زرداری نے 18 اپریل 2024 کو موجودہ پارلیمان سے پہلا خطاب کیا تھا جو 23 منٹ کا تھا جب کہ 10 مارچ کو صدر کا دوسرا خطاب 32 منٹ میں مکمل ہوا ۔
صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کا احتجاج، شور شرابہ اور نعرے بازی جاری رہی جب کہ آصف زرداری کو نعروں کی گونج میں اپنا خطاب مکمل کرنا پڑا۔
پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب کے بعد دوسرے پارلیمانی سال کا آغاز ہوگیا ہے ۔