رسائی کے لنکس

سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن اور میڈیا پر قدغنیں؛ پاکستان شہری حقوق دبانے والے ممالک میں شامل


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

لاہور_بین الاقوامی ادارے سیویکس (CIVICUS) نے پاکستان کو ملک میں سیاسی کارکنوں کے خلاف کارروائیاں کرنے، مظاہرین کی آواز دبانے، آزادیٔ اظہار اور ڈیجیٹل آزادی پر لگائی جانے والی قدغنوں کے باعث پاکستان کو واچ لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔

سیویکس نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ 2024 کے دوران پاکستان میں آزادیٔ اظہار رائے، سول سوسائٹی پر حملوں، مذہبی آزادی، صنفی اور سماجی حقوق سمیت متعدد شعبوں میں مسائل کی نشان دہی ہوئی ہے۔

سیویکس ایک بین الاقوامی ادرہ ہے جو اس کی ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا میں شہری حقوق اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

سیویکس ایک نیٹ ورک ہے جس میں سول سوسائٹی کے نیٹ ورکس اور تنظیمیں، ٹریڈ یونینز، پیشہ ورانہ تنظیمیں، این جی اوز، فلاحی کام کرنے والی فاؤنڈیشنز اور دیگر فنڈنگ باڈیز شامل ہیں۔

سیویکس نے انسانی اور شہری حقوق سے متعلق اپنی واچ لسٹ میں پاکستان کو نارنجی رنگ میں دکھایا ہے۔

درجہ بندی میں یہ رنگ ایسے ملکوں کے لیے ہے جہاں شہری آزادیوں اور حقوق کو ’دبایا‘ جارہا ہے اور اسے ’ری پریسڈ‘ کے زمرے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

سیویکس نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ پاکستان میں ایکٹوسٹس کو مجرم قرار دینے، اقلیتوں کے احتجاج اور حزبِ اختلاف کو دبانے کے علاوہ ڈیجیٹل پابندیوں کے باعث اسے مانیٹر واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

سیاسی کریک ڈاؤن

سیویکس کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں حکومت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری اور اُن کے شوہر کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے ہیں۔ جن میں اِن کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت متعدد مجرمانہ الزامات لگائے گئے ہیں ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگانے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ کو استعمال کیا گیا۔

سیویکس نے اپنے مانیٹرنگ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں سیاسی مخالفین کے احتجاج کے خلاف منظم کارروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں جن میں سینکڑوں لوگوں کو احتجاج سے پہلے گرفتار کیا گیا اور ان پر مبہم قوانین کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔

سیویکس کی مانیٹرنگ کے مطابق پاکستانی حکام نے مظاہرین کی نقل و حرکت روکنے اور اِنہیں محدود کرنے کے لیے اہم شاہراہوں اور راستوں کو بند کیا۔

رپورٹ کے مطابق حکومت نے بلوچ اور سندھی کمیونٹیز کے احتجاج کو طاقت سے روکا اور اُن کے خلاف کارروائیاں کیں جو کہ شہری آزادیوں کو برقرار رکھنے کے پاکستان کے وعدوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

سیویکس مانیٹر نے اپنی واچ لسٹ میں اِس سال پاکستان کے علاوہ سربیا، اٹلی، امریکہ اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو کو بھی شامل کیا ہے۔

میڈیا پر دباؤ

پاکستان میں صحافیوں کے خلاف الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا) کے تحت کارروائیوں کے بارے میں سیویکس مانیٹر رپورٹ کا کہنا ہے کہ رواں سال جنوری میں ترمیم کے بعد سے یہ قانون مزید سخت کر دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئیٹر) کی فروری 2024 سے بند ش اور ملک بھر میں احتجاج کے دوران موبائل اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کا حوالہ دیا گیا ہے۔

سیویکس کے ایڈووکیسی اینڈ کمپین افسر برائے ایشیا راجویلو کرونانیتھی نے کہاہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ایمان زینب مزاری جیسے انسانی حقوق کے محافظین کے خلاف الزامات سیاسی انتقام ہیں، یہ اختلاف رائے کو خاموش کرنے کی کوششیں ہیں۔

اُنہوں نے مطالبه کیا ہے کہ حکومت من گھڑت الزامات فوری طور پر واپس لے، اور پشتون تحفظ موومنٹ پر عائد پابندی ختم کی جائے۔

راجویلو کرونانیتھی نے کہا کہ حکام کو پرامن اجتماع اور اظہار رائے کے حقوق کے تحفظ اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

وائس آف امریکہ نے سیویکس کے اعلامیہ پر وفاقی وزیر برائے قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے قانون عقیل ملک سے مؤقف لینے کے لیے ایک سے زائد بار رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔

’حکومت کسی کو بات نہیں کرنے دینا چاہتی‘

رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اسد اقبال بٹ کاکہنا ہے کہ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال روز بہ روز تباہی کی طرف جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت نے ایک مذہبی دِن منانے کا اعلان کیا ہے، یہ اس کا کام نہیں ہے۔

ان کے بقول اگر ایسا ہو گا تو ملک میں بسنے والی دیگر اقلیتیں کہاں جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح صحافیوں اور میڈیا ہاوسز کو کنٹرول کرنے کے لیے پیکا قوانین متعارف کرائے گئے ہیں اُس کا مطلب یہ کہ حکومت کسی کو بھی بات کرنے دینا نہیں چاہتی۔

چئیرمین ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے حکومت کسی کے نظریات سے اتفاق نہ کرتی ہو لیکن بات کرنے کا حق ہونا چاہے اور ایسا نہ کرنے دینا اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس ڈکلرئیشن کی خلاف ورزی ہے۔

خیال رہے ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ سال پاکستان میں گرتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اِسے بہتر کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG