|
نئی دہلی -- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دو اپریل سے نئے ٹیرف پلان کے نفاذ کے اعلان پر بھارت میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے بھارت کی معیشت پر اثر پڑے گا۔ حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔
بھارت کی وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن کا بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ مساوی باہمی ٹیرف کا بھارت پر اثر پڑے گا۔ لیکن توقع ہے کہ مسئلے کو جلد حل کر لیا جائے گا۔
ان کے مطابق ٹیرف ایک کلیدی ایشو ہے اور امریکی اہل کاروں سے وزیرِ تجارت پیوش گوئل کی بات چیت کا یہ اہم موضوع ہے۔
خیال رہے کہ بھارت کے وزیرِ تجارت پیوش گوئل امریکی حکام سے ملاقات کے لیے امریکہ کے پانچ روزہ دورے پر ہیں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت امریکہ تجارتی معاہدے کا مقصد محصولاتی و غیر محصولاتی رکاوٹوں میں تخفیف، بازار تک رسائی میں توسیع اور سپلائی چین رابطے کا استحکام ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت مصنوعات اور سروسز کے سیکٹر میں دو طرفہ تجارت کے فروغ اور دونوں کے لیے مفید باہمی معاہدے کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے۔
انہو ں نے بھارت کے خلاف جوابی ٹیرف سے متعلق صدر ٹرمپ کے بیان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ ماہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کے امریکہ دورے کے موقع پر فریقین نے اعلان کیا تھا کہ وہ کثیر شعبہ جاتی تجارتی معاہدہ کے سلسلے میں تبادلہ خیال کریں گے۔
خبر رساں ادارے 'اے این آئی' کے مطابق نرملا سیتا رمن نے آندھرا پردیش کے شہر وشاکھا پٹنم میں ایک پوسٹ بجٹ بات چیت میں کہا کہ پیوش گوئل کے مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد ہونے کے بعد ہی بھارت اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائے گا۔ بات چیت میں ہونے والی پیش رفت کی بنیاد پر صورتِ حال کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق امریکی ٹیرف پلان سے بھارت کی برآمدات متاثر ہوں گی۔ لہٰذا بات چیت میں برآمدات اور اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کا معاملہ سب سے اہم ہے۔
ان کے مطابق اس پر ہماری نظر ہے کہ وزیرِ تجارت امریکہ کے ساتھ بات چیت کو کیسے سنبھالتے اور کیسے بھارت کے مفادات کی اچھی طرح نمائندگی کرتے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ امریکہ روانگی سے قبل وزیرِ تجارت نے تمام امور پر حتمی معلومات حاصل کرنے کی غرض سے مختلف وزارتوں، محکموں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی تھی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیوش گوئل کی بات چیت پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ تاہم بھارت کو امید ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا اور تجارتی معاہدے کے ساتھ محصولات سے بچنے کا کوئی راستہ نکل آئے گا۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے متعدد بیانات میں کہا ہے کہ بھارت اپنی مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیرف لگاتا ہے۔ ان کے مطابق جو ملک جتنا ٹیرف لگاتا ہے امریکہ بھی اتنا ہی ٹیرف لگائے گا۔
امریکی اہل کاروں کے ساتھ پیوش گوئل کے مذاکرات میں باہمی تجارتی معاہدے کی پہلی قسط پر بھی حتمی گفتگو ہونی ہے۔ اس سلسلے میں فریقین نے پہلے ہی رضامندی ظاہر کی تھی۔
ـــ'بھارت کی برآمدات پر اثر پڑے گاـ'
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی میں استاد اور اقتصادی امور کے سینئر تجزیہ کار پروفیسر پروین جھا کے مطابق امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی کا مجموعی طور پر بھارت کی برآمدات پر اثر پڑے گا اور جب برآمدات متاثر ہوں گی تو ظاہر ہے معیشت بھی متاثر ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ زیادہ اثر ادویات اور کپڑے کے سیکٹر پر پڑے گا۔ بھارت کے یہی دو سیکٹرز ایسے ہیں جو امریکہ میں بھی اور عالمی سطح پر بھی اپنی موجودگی رکھتے ہیں۔ ان دونوں کے بعد ہیرے اور زیورات کے سیکٹر متاثر ہوں گے۔
ان کے مطابق امریکہ کو چین کی برآمدات اور درآمدات بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ مغرب کے مقابلے میں بھی بھارت کی برآمدات کم ہی ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ٹیرف پالیسی کا بھارت کی مجموعی تجارت پر کتنا اثر پڑے گا۔
تاہم وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب امریکہ بھارتی مصنوعات پر زیادہ محصولات عائد کرے گا تو ایک تو ان کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور دوسرے ڈیمانڈ پر اثر پڑے گا۔ اندرونِ ملک ڈیمانڈ ویسے ہی کم ہے۔ اگر خاص طور پر امریکہ سے ڈیمانڈ کم ہو گی تو برآمدات پر اثر پڑنا لازمی ہے۔
بعض اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ نئے ٹیرف پلان کا بھارت پر خاص طور پر اثر پڑے گا۔ تجارتی خبروں سے متعلق امریکی ادارے 'بلومبرگ اکانومکس' کے مطابق بھارت اور امریکہ کے درمیان ٹیرف میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یعنی بھارت امریکی مصنوعات پر زیادہ محصول لگاتا ہے جب کہ امریکہ بھارتی مصنوعات پر کم لگاتا ہے۔
نشریاتی ادارے 'سی این بی سی ٹی وی 18 'کے مطابق واشنگٹن چاہتا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارت میں زرعی مصنوعات کو چھوڑ کر تمام مصنوعات پر دونوں طرف سے کوئی ٹیکس نہ لگایا جائے۔
اس کا مزید کہنا ہے کہ پیوش گوئل نے واشنگٹن میں امریکہ کے تجارتی نمائندے اور کامرس سیکریٹری سے مذاکرات کیے ہیں۔ لیکن اس کی امید کم ہے کہ بھارت امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی سے کوئی استثنیٰ حاصل کر پائے گا۔
تاہم امریکی اہل کاروں کے ساتھ پیوش گوئل کے مذاکرات کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
پروفیسر پروین جھا کہتے ہیں کہ وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن نے جو بیان دیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ٹیرف کے سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان سے حکومت کی سطح پر بے چینی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پیوش گوئل اعلان کے فوراً بعد ہی مذاکرات کی غرض سے واشنگٹن چلے گئے ہیں۔ لیکن بات چیت کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔
ان کے خیال میں امریکہ کے ساتھ معاملات کرنے کا بھارت کا اب تک کا جو طریقۂ کار رہا ہے اس کے پیشِ نظر اس کا امکان کم ہے کہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا۔
اُن کے بقول یہ ممکن ہے کہ کچھ علامتی اعلان ہو جائے۔ لیکن صدر ٹرمپ کا جو لب و لہجہ ہے اس سے ایسا نہیں لگتا کہ بھارت کچھ زیادہ مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق سب سے زیادہ ادویات کا سیکٹر متاثر ہوگا۔ ادویات بنانے والی بھارت کی کمپنیاں امریکہ کو بہت زیادہ دوائیں سپلائی کرتی ہیں۔ سرِدست امریکہ میں بھارتی دوا سازی پر کوئی درآمدی ڈیوٹی نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق آٹو موبائل سیکٹر پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں ٹریڈ وار کی وجہ سے آٹو موبائل کمپنیوں کے سپلائی چین میں خلل پڑا تھا جس کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا تھا۔ نئے ٹیرف کے اعلان سے آٹو کمپنیوں میں تناو پایا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ کیمیکل، میٹل مصنوعات اور غذائی مصنوعات کے شعبے بھی متاثر ہوں گے۔
فورم