|
بحری جنگی جہازوں کی کمی کی وجہ سے امریکی دفاعی حکام نے خبردار کیا ہے کہ یہ بحران میرینز کی جانب سے فائر پاور کے استعمال کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
امریکی میرین کور کمانڈنٹ جنرل ایرک اسمتھ نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا،"میرے پاس میرینز ہیں، میرے پاس اسکواڈرن ہیں، میر ے پاس بٹالین اور بیٹریاں ہیں، میر ے پاس ایم فب ( زمینی اور سمندری مشنز کے لیے خدمات انجام دینے کے بحری جہاز) نہیں ہیں۔"
ایم فبیئس کہلانے والے یہ جہاز بحری جنگی جہازوں کے امریکی بیڑے میں شامل کل تعداد کا صرف دس فیصد ہیں۔
ان جہازوں کو طیارہ بردار جنگی بحری جہازوں (ایئر کرافٹ کیریئر) کا متبادل سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب کمانڈروں کو اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کے لیے کہیں زیادہ قابل عمل سہولت درکار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ جنگی جہاز میرین کور کے لیے بنائے گئے "ریپڈ ری ایکشن فورسز" کے لیے بنائے گئے واحد جہاز ہیں۔ ایسے جہازوں کو "میرین ایکسپیڈیشنری یونٹس" کہا جاتا ہے جن کا کام کسی حملے کے دوران فوجیوں اور جنگی سازو سامان کو سمندر سے ساحل تک پہنچانا ہے۔
کمانڈر اسمتھ نے کہا "ایم فب ہمارے لیے بہت ہی اہم ہیں۔ وہ ہمارے میرین ہونے کا ایک لازمی حصہ ہیں۔"
واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے امریکہ میں جنگی اور کمرشل بحری جہازوں کی صںعت کی ’از سر نو تجدید‘ کے لیے ایک نیا دفتر قائم کر دیا ہے۔
جب تقریباً دو ہزار میرینز اور بحری فوجیوں پر مشتمل ان یونٹس کو فرائض ادا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تویہ فورس فوج کے لیے "سوئس آرمی نائف"(جس سے متعدد کام لیے جاسکیں) کی خدمات انجام دیتی ہے۔ یعنی وہ ایف 35 جنگی طیاروں کے حملہ کرنے کے مواد کو مہیا کرنے، لڑائی کے علاوہ انخلا کے آپریشن میں مدد دینے اور قدرتی آفات کے دوران ریلیف آپریشنز کے فرائص انجام دیتے ہیں۔
میرینز کو منتقل کرنے کے لیے تین ایم فب جہاز استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑے ڈیک والا جہاز اور دو چھوٹے جہاز شامل ہوتے ہیں۔ انہیں "ایم فبیئس ریڈی گروپ" کہا جاتا ہے۔
اسمتھ کے مطابق امریکہ کو ہر وقت تین ایسے یونٹس تعینات کرنےہوتے ہیں۔ یہ امریکہ کے ایسٹ کوسٹ، ویسٹ کوسٹ اور جاپان سےتعینات کیے جاتے ہیں۔
لیکن اسمتھ کا کہنا ہے کہ وہ فی الوقت اس سے قاصر ہیں۔
امریکی حکومت کے احتساب کے دفتر سے منسلک اہل کار شیلبی اوکلے کہتی ہیں کہ جب امریکہ مشرق وسطیٰ میں جاری دو جنگوں سے نمٹنےمیں مصروف تھا تو اس کے ایم فب جہازوں کے بیڑوں کی مرمت میں التوا کا سامنا کرنا پڑا۔
اوکلے، جو دفتر کی رپورٹ تحریر کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ 32 میں سے نصف ایم فب اس وقت خراب حالت میں ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جس طریقے سے ان بحری جہازوں کا استعمال کیا جارہا ہے یہ فعال نہیں رہیں گے کیونکہ ان کی حفاظت نہیں کی جارہی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ اپنی کار کو انجن آئل تبدیل کیے بغیر چلاتے جائیں اور کہیں کہ اسے 15 سال تک چلنا چاہیے۔
ان کے بقول نظام اس طریقے سے کام نہیں کر رہے جیسے انہیں کرنا چاہیے۔
امریکی کانگریس نے 2022 میں بحریہ کو اپنے بیڑے میں 31 ایم فبیئس جہاز رکھنے کی منظوری دی تھی۔ کانگریس نے کوشش کی تھی ک 6 خستہ حال جہازوں کو 2023 کے بجٹ میں سے نکال دیا جائے۔
اس وقت میرین کور نے کہا تھا کہ اگر بحری بیڑہ 80 فیصد تک تیار حالت میں رہتا ہے تو 31 ایم فبیئس ان کے مشن کو چلانے کے لیے کافی ہوں گے۔
لیکن جنرل اسمتھ نے بتایا کہ اس وقت تیاری کی حالت میں رہنے کی شرح پچاس فیصد کے قریب ہے جبکہ اسے 80 فیصد ہونا چاہیے تھا۔
بقول انکے"اس لیے میں اسے بحران کہتا ہوں۔"
بحریہ کے آپریشنز کے قائم مقام سربراہ ایڈمرل جم کلبی کیا کہتے ہیں؟
بحریہ کے آپریشنز کے قائم مقام سربراہ ایڈمرل جم کلبی نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ کوشش یہ ہے کہ عمر رسیدہ ہوتے بیڑے کو تیار رکھا جائے اور اسے اپنے کام پر مرکوز رکھا جائے۔
ان کے بقول مسئلہ ایم فب جہازوں کے علاوہ بھی ہے۔
"ہم پوری بحریہ کو مشکل سے چلا رہے ہیں۔ جب میں بحریہ میں شامل ہوا تھا ہمارے پاس 600 بحری جہاز تھے۔ اس وقت ہمارے پاس اس تعداد کا نصف ہے۔ پھر بھی ہم اپنا وہی مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
بحریہ کے آپریشنز کے قائم مقام سربراہ ایڈمرل جم کلبی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایم فب جہازوں کی فعال زندگی طویل کرنے کے لیے بحریہ جہازوں کی مرمت کی سہولیات مہیا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ ان جہازوں کی صحت بری نہ ہونے دی جائے۔
ان کے مطابق کانگریس ان سات جہازوں کی مرمت کے لیے بجٹ پر غور کر رہی ہے جن کے بارے میں گزشتہ سالوں میں سوچا نہیں گیا تھا۔
"ہم پر عزم ہیں کہ یہ جہاز میسر رہیں۔ جب ہم کوئی نیا بحری جہاز حاصل کریں تو اسے پرانے کی جگہ استعمال میں لائیں کیونکہ پرانے جہازوں کی مرمت زیادہ مہنگی اورزیادہ مشکل ہے۔"
فورم