|
ویب ڈیسک _صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے امریکہ میں جنگی اور کمرشل بحری جہازوں کی صںعت کو ’دوبارہ زندہ‘ کرنے کے لیے ایک نیا دفتر قائم کر دیا ہے۔
جہاز سازی کی صنعت کی بحالی کے لیے اقدامات امریکہ میں ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے جس کے بارے میں صدر ٹرمپ نے منگل کو اقدامات کا اعلان کیا ۔ ان کے بقول یہ صنعت امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے ’بہت تیز اور بہت جلد‘ زیادہ سے زیادہ بحری جہاز تیار کرنے کا اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چین کے ساتھ امریکہ کی اسٹریٹجک مسابقت بڑھ رہی ہے۔
مرین کور کمانڈنٹ جنر ایرک اسمتھ نے گزشتہ برس کے آخر میں پینٹاگان میں وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’’ہماری جہاز سازی کی صںعت سکڑ تے سکڑے کم ترین صلاحیت پر آگئی ہے۔‘‘
امریکہ میں جہاز سازی یا شپ بلڈنگ اور مرمت کی صنعت کی ابتری اور اس سے دفاعی شعبے کو درپیش خطرات کے بارے میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویوز میں متعدد فوجی اور متعلقہ صنعت کے عہدے داروں نے اظہارِ خیال کیا۔
یہ انٹرویوز صدر ٹرمپ کے حالیہ اعلان سے بہت پہلے کئی ماہ پر محیط عرصے کے دوران کیے گئے تھے۔
امریکہ کی نیوی کو دنیا کی طاقت ور ترین بحری فوج تسلیم کیا جاتا ہے۔ جہاں تک ہتھیاروں، گولہ بارود اور سازوسامان لے جانے کی گنجائش ہے تو یہ بات درست ہے تاہم جب نیوی کے جہازوں کی تعداد کی بات کی جائے تو یہ چین سے کم ہے۔
امریکی بحریہ کے بیڑے میں 296 جہاز ہیں جب کہ چین رواں برس 400 جہازوں کی تعداد کے ساتھ اس سے بہت آگے نکل گیا ہے۔
جہازوں کی تعداد میں کمی
امریکی بحریہ کی جانب سے تعداد بڑھانے کے اہداف متعین کرنے کے باوجود حالیہ برسوں میں اس کے بیڑے میں جہازوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔
بحریہ میں گزشتہ برس کی بجٹ فنڈنگ سے چھ نئے جہاز شامل کیے گئے جب کہ 15 جہاز وں کو ڈی کمیشن کردیا گیا۔ اس طرح کم ہونے والوں جہازوں کی تعداد نو ہوگئی۔ 2025 کے بجٹ میں چھ نئے جہازوں کی فنڈنگ کا منصوبہ ہے تاہم 19 کو ڈی کمیشن کیا جائے گا اس طرح 13 جہاز کم ہوجائیں گے۔
برطانیہ اور امریکہ کی جہاز سازی کی بڑی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں سب سے زیادہ کام امریکی نیوی سے ملتا ہے۔
انڈسٹری لیڈرز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ جہاز بنانے اور مرمت کرنے کے لیے گنجائش ہے۔ لیکن نیوی کی جانب سے بہت کم ہی ٹھیکے مل رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نیوی کی بجٹ کی حکمتِ عملی میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے کبھی بہت کام ملتا ہے اور کبھی بالکل کام نہیں ہوتا۔
شمالی اور جنوبی امریکہ میں جنگی انجن بنانے والی سب سے بڑی کمپنی فیئربینکس مورس ہے اور یہ جنگی بحری جہازوں کے انجن کی بھی سب سے بڑی سپلائر ہے۔
اس کمپنی کے سی ای او جارج وٹیئر کا کہنا ہے کہ طلب میں آنے والے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے انجن کے پرزے فراہم کرنے والے ہزاروں سپلائر کام چھوڑ گئے ہیں۔ ان کے بقول ہمارے پاس انجن کے دو سپلائرز ہیں لیکن اگر نیوی سال میں صرف چھ ہی جہاز بنائے گی تو دو کا ذکر ہی کیا، ایک سپلائر کو بھی کام دینا مشکل ہوجاتا ہے۔
وٹیئر کا کہنا ہے کہ کام جاری رکھنے کے ایک ہی طریقہ ہے کہ کام بڑھایا جائے۔
قائم مقام وائس چیف آف نیول آپریشنز ایڈمرل جم کلبی بڑے بحری بیڑے کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پرانے جہازوں اور آبدوزوں کو تبدیل کرنے کے لیے بجٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے نیوی کی قوت میں بہت کم اضافہ ہورہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ہمیں کوئی نیا جہاز ملتا ہے تو ہم اس سے پرانے جہاز کو تبدیل کردیتے ہیں کیوں کہ پرانے جہاز پر زیادہ اخراجات آتے ہیں اور ان کی مرمت بھی زیادہ مشکل ہوتی ہے۔
کمرشل شپنگ
امریکہ کی کانگریس کی جانب سے جہازوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے فوج کے بجٹ میں اضافہ متوقع ہے۔
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن سینیٹر مارک کیلی کے مطابق امریکہ کی کمرشل شپنگ کو بھی بچانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے وی او اے کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ کے پاس 10 ہزار جہاز تھے جو اب کم ہو کر صرف 85 ہو گئے ہیں۔
مارک کیلی کے مطابق جغرافیائی طور پر کسی قریب ترین حریف سے تنازع کی صورت میں اگر کوئی ہنگامی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو ہمارے پاس سمندر پار سے آلات اور فوجی نفری لانے کے لیے بہت محدود صلاحیت ہوگی۔
امریکہ ہر سال کم تقریباً پانچ کمرشل بحری جہاز بناتا ہے جب کہ چین سال میں ایک ہزار سے زائد جہاز بناتا ہے۔
سینیٹر کیلی نے دسمبر میں قانون سازی کے لیے ’شپس فور امریکہ ایکٹ‘ نامی مشترکہ بل پیش کیا تھا۔ اس بل کا مقصد اگلے 10 سال میں امریکہ کا کمرشل بیڑہ 250 جہازوں تک لے جانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس کے علاوہ فوجی جہازوں کے پرزوں اور ساز و سامان کی فراہمی بڑھانے کے لیے بھی مراعات کی تجویز دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بل میں جہاز سازی کی صںعت کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ سمیت جو مراعات دی جائیں گی وہ مالی خسارے میں اضافہ کیے بغیر انتہائی کار آمد ثابت ہوں گی۔