رسائی کے لنکس

ایرانی رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے صدر ٹرمپ کی مذاکرات کی پیش کش رد کر دی


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

ویب ڈیسک — ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کی طرف سے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت شروع کرنے کی کوشش کو رد کرتے ہیں کیوں کہ اس کا مقصد ایرانی میزائلوں کی رینج اور خطے میں اس کا اثر و رسوخ کم کرنا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ایرانی رہبر اعلیٰ نے ہفتے کو سرکاری حکام کے ایک گروپ سے خطاب میں امریکہ کا نام لیے بغٰیر کہا کہ ایک دھونس جمانے والی حکومت بات چیت شروع کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔

ایرانی رہبر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی بات چیت کا مقصد مسائل کا حل نکالنا نہیں بلکہ میز کے دوسری جانب بیٹھے فریق پر اپنی مرضی تھوپنا ہے۔

خامنہ ای کے یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی رہبر اعلیٰ کو ایک خط بھیجنے کی تصدیق کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے مطابق انہوں نے خط میں تہران کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام کو روکنے اور اس جوہری معاہدے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس سےصدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

خامنہ ای کا مزید کہنا تھا کہ امریکی مطالبات فوجی نوعیت اور ایران کے خطے میں اثر و رسوخ سے متعلق ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ مطالبات دفاعی اور ایران کی بین الاقوامی صلاحیتوں سے متعلق ہوں گے۔ وہ ایران سے کچھ چیزیں نہ کرنے، کچھ لوگوں سے نہ ملنے، کچھ مقامات پر نہ جانے اور کچھ چیزیں نہ بنانے کے علاوہ میزائل کی رینج ایک خاص فاصلے سے زیادہ نہ کرنے کی بات کریں گے۔یہ سب کچھ قبول کرنا کسی کے لیے ممکن ہو گا؟‘‘

ایرانی کی ریاستی امور میں حرفِ آخر کی حیثیت رکھنے والے خامنہ ای کے بقول اس بات چیت کا مقصد ایران اور مغرب کے درمیان مشکلات کو حل کرنا نہیں ہو گا۔

خامنہ ای نے کسی فرد یا ملک کا نام نہیں لیے بغیر کہا کہ ایران سے بات چیت پر اصرار دراصل رائے عامہ میں دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات چیت نہیں ہے بلکہ حکم دینا اور مسلط کرنا ہے۔

خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے جمعے کو اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو میں خط کا ذکر براہ راست نہیں کیا تھا تاہم انہوں نے خفیہ ملٹری ایکشن کا یہ کہتے ہوئے اشارہ دیا کہ ایران کے ساتھ ہماری صورت حال یہ ہے کہ بہت جلد، بہت جلد کچھ ہونے والا ہے۔

صدر ٹرمپ کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ وہ کبھی بھی ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے جس کے نتیجے میں فوجی تصادم کا خدشہ ہے کیوں کہ تہران ہتھیاروں کی سطح پر یورینیم کی افزودگی کررہاہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس کوئی ملک ہی کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ تہران ایک طویل عرصے سے دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

علاوہ ازیں پچھلے سال اگست میں خامنہ ای نے ایک خطاب کے دوران امریکہ کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ دشمن کے ساتھ بات چیت میں کوئی نقصان نہیں۔

البتہ امریکی صدر کی جانب سے تہران کے ساتھ ممکنہ جوہری مذاکرات کے اشارے سامنے آنے پر حال ہی میں رہبر اعلٰی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ عقل اور وقار دونوں کے منافی ہے۔

اس رپورٹ میں شامل معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG