رسائی کے لنکس

پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی صنعت ٹیکسٹائل زوال کا شکار کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • رواں سال جنوری کے مقابلے میں فروری میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں لگ بھگ 15 فی صد کمی دیکھی گئی ہے۔
  • پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل صنعت کا حصہ 60 فی صد کے لگ بھگ ہے:ادارہ شماریات
  • مالی سال 2022 میں پاکستان کی مجموعی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات 19 ارب ڈالر تھی۔
  • مالی سال 2023 میں یہ کم ہوکر 16 ارب 50 کروڑ ڈالر پر آ گئی تھی۔
  • گزشتہ برس 2024 میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات مزید کم ہوکر 15 ارب 97 کروڑ ڈالر ہوگئی ہیں۔

کراچی—پاکستان کی وزارتِ تجارت کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک کی ٹیکسٹائل برآمدات صرف ایک ماہ میں 15 فی صد کمی کا شکار ہوئی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دیگر مسائل کے ساتھ ملک میں اس سال کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے بھی ٹیکسٹائل کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکسٹائل صنعت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔

اگرچہ گزشتہ مالی سال 2024 کے دوران پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں قدرے اضافہ دیکھا گیا تھا۔ لیکن گزشتہ چند ماہ میں اس میں کمی آنے کے باعث توقع کی جا رہی ہے کہ رواں مالی سال میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں مزید نیچے آسکتی ہے۔

رواں سال جنوری کے مقابلے میں فروری میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں لگ بھگ 15 فی صد کمی دیکھی گئی ہے جو سات ماہ کی کم ترین سطح ہے۔

رواں سال فروری میں ملک کی ٹیکسٹائل کی برآمدات مجموعی طور پر ایک ارب 42 کروڑ ڈالر رہی جو جنوری میں ایک ارب 68 کروڑ ڈالر تھی۔ اس طرح صرف ایک ماہ میں ٹیکسٹائل مصنوعات میں 26 کروڑ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا حصہ 60 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ اس میں تیار لباس، گارمنٹس، بیڈ ویئر، تولیے اور دھاگے کی برآمد شامل ہے۔

تاہم گزشتہ دو برس میں ان برآمدات میں خاطر خواہ اضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2022 میں پاکستان کی مجموعی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات 19 ارب ڈالر تھی۔ لیکن مالی سال 2023 میں یہ کم ہوکر 16 ارب 50 کروڑ ڈالر پر آ گئیں تھی ۔

گزشتہ برس یعنی سال 2024 میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات مزید کم ہوکر 15 ارب 97 کروڑ ڈالر ہوگئیں۔

ٹیکسٹائل مصنوعات میں مسلسل کمی کی وجہ کیا ہے؟

ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ معروف تاجر میاں زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اس کمی کی سب سے بڑی وجہ تو ملک میں ٹیکسٹائل کی کاروباری لاگت میں اضافہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو چلانے کے لیے بجلی کی ضرورت ہے اور ملک میں بجلی 13 سے 14 سینٹ فی یونٹ مہیا کی جاتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں خطے کے دیگر ممالک میں یہ شرح 6 سے 7 سینٹ فی یونٹ ہے۔ ایسے میں پاکستان میں تیار کردہ مصنوعات دیگر ممالک کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہیں اور یوں عالمی منڈی میں مسابقت کھو بیٹھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت بینکوں سے قرضہ لینے کے لیے شرح سود 13 سے 14 فی صد تک ہے اور دیگر ممالک میں شرح سود قدرے کم ہے۔

ان کے بقول ، شرحِ سود چھ فی صد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے تاکہ تاجروں کو اپنا کاروبار کرنے، اسے وسعت دینے یا کاروباری سائیکل چلانے کے لیے مناسب رقم آسانی سے دستیاب ہو۔

کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی

اس شعبے سے جڑے دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی برس میں کپاس کی کم ہوتی ہوئی پیداوار بھی ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری پر اثر انداز ہو رہی ہے اور نتیجے کے طور پر ملکی برآمدات میں بھی کمی دیکھی آئی ہے۔

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ رواں برس سرکاری ہدف کے مقابلے میں کپاس کی پیداوار 50 فی صد کم ہوئی ہے اور گزشتہ سال کی پیداوار سے موازنہ کیا جائے تو اس کے مقابلے میں یہ 34 فی صد کم ہوئی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پیداوار میں کمی کے باوجود تقریبا ساڑھے تین لاکھ بیلز جننگ فیکٹریوں میں پڑی ہوئی ہیں جنھیں اب تک ٹیکسٹائل فیکٹریوں نے نہیں خریدا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملز مالکان کپاس ہونے کے باوجود پیداواری قیمت زیادہ ہونے یا دیگر وجوہات کی وجہ سے روئی خریدنے کے لیے تیار نہیں۔

مبصرین کے مطابق اس صورتِ حال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں ٹیکسٹائل پیداوار میں مزید کمی کا اندیشہ ہے جب کہ کسانوں کو حالیہ عرصے میں بہتر قیمت نہ ملنے کی وجہ سے وہ آئندہ سال کپاس اگانے سے اجتناب کریں گے جس سے کپاس کی پیداوار مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہوگا۔

کپاس ملک کی زرعی پیداوار میں اہم نقد آور جنس ہے جس سے نہ صرف لاکھوں افراد براہِ راست یا بالواسطہ طور پر وابستہ ہیں بلکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے وسیلے سے قومی معیشت کا اس پر بڑا انحصار ہے۔

اس بڑی صنعت کے لیے سب سے اہم خام مال کا درجہ رکھنے والی کپاس کچھ عرصے قبل تک پاکستان برآمد بھی کرتا تھا۔ کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 40 لاکھ گانٹھیں سالانہ تھی جو اب کم ہو کر اس سال 55 لاکھ 25 ہزار گانٹھوں (بیلز) پر آگئی ہے کیوں کہ ملک میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں مسلسل کمی آئی ہے اور کپاس کے علاقوں میں اب زیادہ تر گنے کی کاشت ہو رہی ہے۔

سرکاری ادارے پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔ تاہم اس کی پیداوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال ملک میں کپاس کی بوائی کا علاقہ 17 فی صد کم ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے قبل کپاس برآمد کرنے والا ملک اب کئی ارب ڈالر کی کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہے۔

حکومتی اقدامات

ادھر حکومت نے ملک میں کپاس کی پیداوار تیزی سے کم ہونے پر فوری اقدامات کا اعلان کیا ہے اور کپاس کی فصل کی بحالی کے لیے 15 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

وفاقی وزیرِ فوڈ سیکیورٹی کی سربراہی میں کمیٹی کپاس کی فصل کی بحالی کے لیے ایک ماہ میں تجاویز دے گی۔

اس کمیٹی کا پہلا اجلاس آئندہ ہفتے ہوگا۔ کمیٹی بین الاقوامی معیارات، آلودگی کے پیرامیٹرز کا جائزہ، روئی کی گانٹھوں کی مناسب درجہ بندی اوراسے معیاری بنانے کے لیے سفارشات تیار کرکے حکومت کو دے گی۔

دوسری جانب آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن(اپٹما) کے وفد نے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب سے گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو درپیش توانائی، ٹیکس اور فنانسنگ سے متعلق کئی اہم مسائل پر تفصیلی پریزنٹیشن دی تھی۔

ترجمان وزارتِ خزانہ کے مطابق وزیر خزانہ نے اپٹما کی قیادت کو یقین دلایا ہے کہ حکومت وفاقی بجٹ میں قابل عمل تجاویز کو شامل کرتے ہوئے ان کی سفارشات کا مکمل اور سوچ سمجھ کر تجزیہ کرے گی۔

ٹیکسٹائل صنعت کی بحالی کے لیے کیا اقدامات درکار ہیں؟

ایک جانب زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے نئی ریسرچ، بہترین بیج درآمد کرنے کی فوری اجازت اور فرسودہ قوانین سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ تو دوسری جانب کسانوں کو گنے کے بجائے کپاس اگانے کے لیے قائل کرنا ہوگا۔

مبصرین کے مطابق کپاس کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے حکومت کو امدادی قیمت دینا ہوگی لیکن آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے یہ اب ممکن نظر نہیں آتا۔

اس بارے میں صنعت کار میاں زاہد حسین کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو پھر سے استحکام دینے کے لیے پیدواری قیمت کو کم کرنے کے ساتھ نئی منڈیاں بالخصوص افریقی منڈیوں کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔

ادھر فیصل آباد میں واقع نیشنل یونی ورسٹی فار ٹیکسٹائل سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر تنویر حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کی برآمدات میں کمی کی تین بنیادی وجوہات میں ویلیو ایڈیشن، دوسرا مصنوعات میں تنوع اور تیسرا جدت کا فقدان ہے۔

اس کے ساتھ وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں توانائی کی قیمتیں زیادہ ہیں جس کا نقصان پاکستان کو ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات زیادہ ہونے کی وجہ ویلیو ایڈیشن ہے۔ پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کا زیادہ تر فوکس روایتی طور پر ہوم میڈ ٹیکسٹائل پر رہا ہے جس کی دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 80 ارب ڈالر کی مارکیٹ ہے جب کہ دوسری جانب گارمنٹس کی مارکیٹ کہیں بڑی ہے اور دنیا بھر میں اس کا حجم 500 ارب ڈالر کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔

ان کے بقول بنگلہ دیش اور ویتنام نے فوکس ہوم میڈ ٹیکسٹائل کے بجائے گارمنٹس پرکام کیا۔ اسی کے باعث یہ ممالک اس شعبے میں اپنی برآمدات بڑھانے میں کامیاب رہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG