رسائی کے لنکس

امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی; پاکستانی معیشت کے لیے موقع یا نقصان؟


  • آفس آف دا یو ایس ٹریڈ ریپریزینٹیٹو کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت 7.3 ارب ڈالر رہی۔
  • سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اسلام آباد سے وابستہ زہرہ نیازی کہتی ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تنازع کی وجہ سے امریکی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ کم ہو سکتی ہے۔
  • پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت میں تو زان پاکستان کے حق میں ہے اور اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ پاکستان پر بھی امریکی حکومت ٹیرف لگاسکتی ہے: ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر اقدس افضل

کراچی -- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تجارتی پارٹنرز پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان اور اس کے عالمی معیشت پر اثرات کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ کا بڑا تجارتی شراکت دار ہونے کے ناطے پاکستان پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔

آفس آف دا یو ایس ٹریڈ ریپریزینٹیٹو کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت 7.3 ارب ڈالر رہی۔

خیال رہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی پارٹنر امریکہ ہے اور 2023 کےادارۂ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے کُل مصنوعات کا18 فی صد امریکہ کو برآمد کیا۔

اس کے علاوہ پاکستان نے امریکہ سے لگ بھگ دو ارب 10 کروڑ ڈالرز کی اشیا درآمد کیں جب کہ پاکستان نے امریکی منڈیوں میں لگ بھگ پانچ ارب 10 کروڑ ڈالرز کی اشیا ایکسپورٹ کیں۔

یوں امریکہ کو اس تجارت میں تین ارب ڈالر کے گھاٹے کا سامنا کرنا پڑا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں پانچ فی صد زیادہ ہے۔

دوسری جانب امریکہ کو اپنے اہم پارٹنر بھارت سے تجارت میں گزشتہ سال 45 ارب ڈالر سے زائد کا خسارہ برداشت کرنا پڑا جب کہ چین سے امریکہ کا تجارتی خسارہ اسی عرصے کے دوران 295ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ پاکستان کے مقابلے میں دیگر ممالک سے امریکہ کو بھاری تجارتی خسارہ کا سامنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ امریکی حکومت پاکستانی مصنوعات پر بھی جوابی ٹیرف عائد کرسکتی ہے۔

کیا پاکستانی مصنوعات کی مانگ کم ہو سکتی ہے؟

سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اسلام آباد سے وابستہ زہرہ نیازی کہتی ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تنازع کی وجہ سے امریکی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ کم ہو سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی امریکہ کے لیے برآمدات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

اُن کے بقول اس کا دوسرا رخ یہ ہو سکتا ہے کہ عالمی تجارتی تنازعات کے باعث اجناس کی قیمتوں میں کمی اور اس کے نتیجے کے طور پر پاکستان میں سستی اشیا کی تیاری سے اس کی برآمدات بڑھ بھی سکتی ہیں۔

زہرہ نیازی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تنازع کے دوران بھارت، بنگلہ دیش اور کچھ دوسرے ممالک نے امریکی مارکیٹ میں خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔

اُن کے بقول دونوں ممالک کی امریکہ کے ساتھ تجارت میں بالترتیب 39 اور 50 فی صد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان کی امریکہ کو برآمدات میں تین فی صد کمی واقع ہوئی تھی۔

انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے اپنی برآمدات کو روایتی اشیا سے ہٹ کر متنوع بنایا ہوا تھا جس میں ٹیکسٹائل اور فارماسیوٹیکل مصنوعات کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات، الیکٹرونکس اور دیگر اشیا بھی شامل تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سے ان ممالک کی مصنوعات کو امریکی مارکیٹ میں پذیرائی ملی۔ لیکن دوسری جانب پاکستان اب تک اپنی برآمدات میں تنوع لانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل اور اس سے بنی مصنوعات کا حصہ 50 فی صد رہا جس کے بعد برآمدات میں سبزیوں کا حصہ 15 فی صد رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں قوت ہونے کے باوجود توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر انفراسٹرکچر ایشوز کے باعث عالمی منڈی میں اس کی مسابقت میں اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ حال ہی میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو سیلز ٹیکس سے حاصل استثنیٰ ختم کیے جانے سے اس شعبے سے جڑے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے لیے منفی صورتِ حال پیدا ہونے کے خدشات

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اقدس افضل بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔

ان کا بھی کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کی امریکہ کے ساتھ تجارت میں تو زان پاکستان کے حق میں ہے اور اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ پاکستان پر بھی امریکی حکومت ٹیرف لگاسکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر باہمی محصولات عائد کیے گئے تو اس کے پاکستان کی معیشت کے لیے منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ اس سے پاکستان کے زرِمبادلہ کمانے میں کمی آئے گی اور جب اس میں کمی آئے گی تو اس سے پاکستانی کرنسی پر بھی اثر پڑے گا۔

پاکستان کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

ڈاکٹر اقدس کے خیال میں اس صورتِ حال میں پاکستان کے پالیسی سازوں کو ابھی سے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ان کا ردِعمل کیا ہوگا۔ کیا پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کرنی ہے یا بات چیت کے بجائے مکمل طور پر سرینڈر کرنا ہے یا پھر امریکہ کی جانب سے محصولات عائد کرنے پر پاکستان نے بھی امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات عائد کرنے ہیں۔

اُن کے بقول دنیا میں آزاد تجارت کے تصورات دم توڑ رہے ہیں اور اس کی جگہ اسٹریٹجک ٹریڈ جیسے تصورات سامنے آ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آگے چل کر پاکستان کو اپنے موجودہ فری ٹریڈ ایگریمنٹس پر بھی نظر َثانی کرنا ہو گی۔

چند منڈیوں پر انحصار کے بجائے نئی تجارتی منڈیاں تلاش کرنے کی ضرورت

زہرہ نیازی کے خیال میں اس صورتِ حال میں پاکستان کو سفارتی تعلقات کو استعمال میں لاکر ابھرتی ہوئی مارکیٹس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اگر کسی خاص ملک کے ساتھ تجارت میں خلل پڑتا ہے تو متبادل منڈیوں میں مواقع تلاش کیے جائیں۔

پاکستان کے معروف بروکریج ہاؤس اے کے ڈی سیکیورٹیز نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر امریکہ کی طرف سے صرف میکسیکو، کینیڈا اور چین پر ہی محصولات کا نفاذ کیا جائے تو یہ پاکستان کے لیے مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک پر ٹیرف عائد کرنے سے پاکستان کے لیے امریکی منڈیوں میں اشیا فراہم کرنے کے راستے آسان ہو سکتے ہیں جس سے ممکنہ طور پر مختلف صنعتوں بشمول ٹیکسٹائل اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کو مدد ملے گی۔

پاکستان اور امریکہ کن اشیا کی تجارت کرتے ہیں؟

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان ٹیکسٹائل مصنوعات، تیار کپڑے، چمڑے اور اس کی بنی ہوئی اشیا، فرنیچر اور مختلف طبی آلات امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔

پاکستان پلاسٹک، نمک، سلفر، چینی اور چینی سے بنی مختلف اشیاٗ، قالین، اناج، ربر، قیمتی پتھر، سیمنٹ، گوشت، مچھلی، کاغذ اور کاغذ سے تیار کردہ دیگر مصنوعات اور فرٹیلائزر وغیرہ بھی امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔

دوسری جانب امریکہ سے پاکستان آنے والی اشیاٗ میں کپاس، لوہا، اسٹیل، مشینری، جہاز، آرگینک کیمیکلز، بجلی کا مختلف سامان، تانبا اور اس کی بنی ہوئی اشیا اور مختلف قسم کے صابن اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG