|
ویب ڈیسک — امریکہ اور روس نے یوکرین میں جنگ ختم کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
یہ فیصلہ منگل کو سعودی عرب کی میزبانی میں یوکرین کے معاملے پر امریکہ اور روس کے وزرائے خارجہ مارکو روبیو اور سرگئی لاوروف کے درمیان بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے۔
ملاقات میں مارکو روبیو کے ساتھ صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ اسٹیو وٹکوف بھی شریک ہوئے۔
روسی وزیرِ خارجہ کی معاونت صدر ولادیمیر پوٹن کے خارجہ امور کے مشیر یوری یشکوو نے کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بات چیت کے پہلے دور کے بعد فریقین نے یوکرین تنازع کو فوری ختم کرنے کے لیے اعلٰی سطحی ٹیمیں مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد یوکرین تنازع کا ایسا قابلِ عمل حل تلاش کرنا ہے جو تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ "صدر ٹرمپ ہلاکتیں روکنا چاہتے ہیں، امریکہ امن چاہتا ہے اور دنیا میں اپنی طاقت کا استعمال ممالک کو اکٹھا کرنے کے لیے کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ واحد رہنما ہیں جو روس اور یوکرین کو کسی حل پر راضی کر سکتے ہیں۔"
'یوکرین جنگ کے حل پر سب کو راضی ہونا ہوگا'
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ یوکرین کے مسئلے میں جو بھی شامل ہیں، ان سب کو اس جنگ کے خاتمے کے لیے جو بھی حل نکلا، اس پر راضی ہونا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ روسی حکام کے ریاض میں ہونے والی ملاقات طویل اور مشکل سفر کا پہلا قدم تھی۔ جس کا مقصد یوکرین جنگ کو منصفانہ اور پائیدار طریقے سے ختم کرنا ہے۔
روبیو نے کہا کہ کسی کو سائیڈ لائن نہیں کر رہے، یورپی یونین کو کسی موقع پر مذاکرات میں شامل کرنا ہوگا۔
چار گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد روسی صدر کے خارجہ امور کے مشیر یوری یشکوو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ اُن تمام سوالات پر بہت سنجیدہ گفتگو تھی جس پر ہم بات کرنا چاہتے تھے۔"
ملاقات میں سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود اور قومی سلامتی کے مشیر مساعد بن محمد العیبان بھی شریک تھے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکہ و روس کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان ملاقات کا مقصد صدر ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے درمیان ملاقات کے لیے راہ ہموار کرنا، دوطرفہ تعلقات کی بحالی اور یوکرین تنازع پر مذاکرات کرنا ہے۔
ملاقات سے قبل صدر پوٹن کے مشیر برائے قومی سلامتی نے واضح کیا تھا کہ امریکی حکام سے "خالصتاً دوطرفہ" مذاکرات ہوں گے جس میں یوکرین کا کوئی بھی عہدیدار شریک نہیں ہو گا۔
دوسری جانب یوکرین کے صدرولودومیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ یوکرین کی شمولیت کے بغیر مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور یوکرین ایسے کسی مذاکرات کے نتیجے کو قبول نہیں کرے گا۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے روسی صدر سے جنگ کے خاتمے کے لیے گفتگو شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے صدر پوٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی اور کہا تھا کہ پوٹن جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا تھا اور فریقین کے درمیان تین سال بعد بھی لڑائی جاری ہے۔
جنگ کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوچکی ہیں جب کہ یوکرین میں بڑی تعداد میں آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
امریکہ اور روس کے درمیان منگل کو سعودی عرب میں جاری مذاکرات سے قبل فرانس نے یورپی رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس پیر کو پیرس میں طلب کیا تھا۔
اجلاس میں شریک یورپی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یوکرین معاملے پر ہونے والے مذاکرات میں ان کی رائے بھی شامل کی جائے۔
پیرس مذاکرات سے قبل برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا تھا کہ کسی بھی امن معاہدے کی صورت میں وہ برطانوی فوجی اہلکار یوکرین بھیجنے کے لیے تیار ہیں جب کہ دیگر یورپی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ قبل از وقت ہے۔
یاد رہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اسرائیل کا دورہ مکمل کر کے پیر کو ہی سعودی عرب پہنچے تھے اور انہوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اپنے سعودی ہم منصب سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔