رسائی کے لنکس

یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات؛ یورپی رہنما بھی شمولیت کے خواہش مند


  • پیرس کانفرنس کے دوران یورپی رہنماؤں نے فوری طور پر اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے اور یوکرین کی مدد کرنے کے معاملات پر بات چیت کی ہے۔
  • یورپی ممالک کو ایک متفقہ نتیجے پر آنا چاہیے کہ وہ اپنا حصہ کس طرح ڈال سکتے ہیں، وزیرِ اعظم نیدرلینڈز
  • کسی بھی امن معاہدے کی صورت میں فوج یوکرین بھیجنے کو تیار ہیں: برطانوی وزیرِ اعظم
  • کسی بھی امن معاہدے میں یورپی یونین اور یوکرین کی شمولیت ضروری ہو گی، ہسپانوی وزیرِ اعظم

ویب ڈیسک _ مغربی ملکوں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے ممکنہ مذاکرات میں ان کی رائے بھی شامل کی جائے۔

فرانس کے شہر پیرس میں پیر کو یورپی رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، پولینڈ، اسپین، نیدرلینڈز اور ڈنمارک کے رہنما شریک ہوئے۔

تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں یوکرین سمیت یورپی خطے کی سیکیورٹی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

اجلاس میں یورپی یونین اور مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کی نمائندگی بھی تھی۔

یورپی رہنماؤں کی یہ بیٹھک ایسے موقع پر ہوئی جب امریکہ اور روسی حکام کے درمیان منگل کو سعودی عرب میں ممکنہ طور پر مذاکرات ہونے ہیں۔

امریکی و روسی عہدیدار یوکرین کے معاملے سمیت صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ممکنہ ملاقات پر بات چیت کریں گے۔

سعودی عرب میں ہونے والی اس ملاقات کے لیے نہ تو یوکرین کو مدعو کیا گیا اور نہ ہی کسی یورپی رہنما کو بلایا گیا ہے۔

دوسری جانب پیرس کانفرنس کے دوران یورپی رہنماؤں نے فوری طور پر اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے اور یوکرین کی مدد کرنے کے معاملات پر بات چیت کی۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق پیرس کانفرنس شروع ہونے سے کچھ دیر قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے صدر ٹرمپ سے فون پر رابطہ کیا تھا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان 20 منٹ تک گفتگو جاری رہی تھی۔

صدر میکرون کے دفتر نے اس گفتگو کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔

واضح رہے کہ امریکہ یورپ کو طویل عرصے سے کہتا رہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے مزید اقدامات کرے۔ روس حالیہ عرصے میں حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یوکرین میں پیش قدمی کر چکا ہے جب کہ واشنگٹن نیٹو میں شامل یورپی ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے دفاع کے بجٹ میں اضافہ کریں۔ایسے میں یورپی ممالک اب ہنگامی طور پر دفاعی اخراجات بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

واضح رہے کہ روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی سب سے زیادہ مدد کرنے والا ملک امریکہ رہا ہے۔

پیرس کانفرنس کے دوران نیدرلینڈز کے وزیرِ اعظم ڈک شوف نے تسلیم کیا کہ یورپی ممالک کو ایک متفقہ نتیجے پر آنا چاہیے کہ وہ یوکرین کے معاملے میں اپنا حصہ کس طرح ڈال سکتے ہیں اور یہ وہی طریقہ ہے جس کی بدولت وہ مذاکرات کی ٹیبل پر اپنی نشست لے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بغیر حصہ ڈالے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ کسی بھی امن معاہدے کی صورت میں وہ برطانوی فوجی اہلکار یوکرین بھیجنے کے لیے تیار ہیں جب کہ دیگر یورپی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی فیصلہ قبل از وقت ہے۔

پولینڈ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی فوج پر یوکرین کی سرزمین کی چھاپ لگے۔

ہسپانوی وزیرِ اعظم پیڈرو سینشیز کا کہنا ہے کہ کسی بھی امن معاہدے میں یورپی یونین اور یوکرین کی شمولیت ضروری ہو گی۔

وائس آف امریکہ کی لیسا برینٹ کی رپورٹ کے مطابق لندن میں موجود تھنک ٹینک ِچٹھم ہاؤس کے یوکرین فورم کی سربراہ اوریسا لٹسیوچ کہتی ہیں کہ گزشتہ ہفتے میونخ میں ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس نے یورپ کو امریکہ کی نئی ترجیحات کے بارے میں فکر مند کر دیا ہے۔ میونخ کانفرنس یورپ کو جنجھوڑنے کے لیے تھی۔ ان کے بقول امریکہ میں ایک مختلف ٹیم ہے اور یورپ نے یہ سمجھنے میں تاخیر کر دی ہے۔

پیرس میں یورپی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات سے قبل پولینڈ کے وزیرِ اعظم ڈونلڈ ٹسک نے یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان مقابلے کی فضا قائم کرنے کو بے معنی اور خطرناک قرار دیا تھا۔

جرمن مارشل فنڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار این لیسر کا کہنا ہے کہ یورپی رہنماؤں کے ایجنڈے میں عنقریب دو اہم مسائل ہوں گے۔ان کے بقول ایک مسئلہ یہ ہے کہ یوکرین کے معاملے میں کیا ہو سکتا ہے۔ یا پھر مسئلے کے تصفیے یا جنگ بندی کی صورت میں کیا کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ روس نے لگ بھگ تین برس قبل فروری 2022 میں یوکرین پر جارحانہ حملہ کیا تھا اور فریقین کے درمیان اب بھی لڑائی جاری ہے۔

جنگ کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوچکی ہیں جب کہ یوکرین میں بڑی تعداد میں آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG