رسائی کے لنکس

حماس کا خاتمہ ضروری ہے، اس کی موجودگی میں قیامِ امن ممکن نہیں: امریکی وزیرِ خارجہ


  • مارکو روبیو نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔
  • امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو منصب سنبھالنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کا پہلا دورہ کر رہے ہیں۔
  • غزہ سے متعلق اسرائیل اور امریکہ کا مشترکہ نقطۂ نظر ہے: اسرائیلی وزیرِ اعظم
  • نیتن یاہو کے بقول وہ خطے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے جرات مندانہ وژن کے معترف ہیں۔
  • جب تک حماس ایک قوت کے طور پر موجود رہے گی امن کا قیام ممکن نہیں ہے: امریکی وزیرِ خارجہ

ویب ڈیسک— امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ حماس کا خاتمہ ضروری ہے اور یہ عسکری یا اقتدار میں رہنے والی قوت کے طور پر نہیں رہ سکتی۔

اتوار کو یروشلم میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہوسے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ حماس جب تک ایک انتظامی یا عسکری قوت کے طور پر موجود رہے گی امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔

یہ منصب سنبھالنے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ کا مشرقِ وسطیٰ کا پہلا دورہ ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق مارکو روبیو نے اتوار کو نیتن یاہو سے ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر تبادلۂ خیال کیا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور امریکی وزیرِ خارجہ نے پرائیویٹ میٹنگ بھی کی۔

مارکو روبیو اسرائیل کےبعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی جائیں گے۔

مارکو روبیو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ سے متعلق اسرائیل اور امریکہ کا مشترکہ نقطۂ نظر ہے۔ ان کے بقول وہ اس خطے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے جرات مندانہ وژن کے معترف ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اس وژن کو حقیقت بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

غزہ سے متعلق صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے مطابق 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو مستقل طور پر دیگر عرب ممالک منتقل کرکے آباد کیا جائے گا جب کہ غزہ پر امریکہ کا کنٹرول ہو گا اور اسے ایک شان دار تفریحی مقام میں تبدیل کر دیا جائے گا۔عرب لیگ میں شامل ممالک اس منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں۔

ہفتے کی شب امریکی وزیرِ خارجہ کی اسرائیل آمد سے چند گھنٹے قبل ہی حماس نے تین اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کیا تھا جس کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید 369 فلسطینیوں کو بھی رہا کیا گیا۔

خیال رہے کہ حماس اور اسرائیل میں 19 جنوری کو جنگ بندی معاہدہ ہونے کے بعد یہ فریقین میں یرغمالوں اور قیدیوں کے تبادلے کا چھٹا دور تھا۔

عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس نے 10 فروری کو ایک بیان میں اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئےمزید یرغمالوں کی رہائی معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے بھی اسی دن ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر حماس نے ہفتے کو دن 12 بجے تک تمام یرغمالوں کو نہ چھوڑا تو وہ اسرائیلی وزیرِ اعظم سے تمام معاہدے ختم کرنے کا کہیں گے اور پھر تباہی آئے گی۔ صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد حماس نے جمعرات کو جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کا اعلان کیا تھا۔

جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے مذاکرات کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ آئندہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوں گے۔

حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں پر مشتمل تھا جس کی میعاد رواں ماہ کے آخر میں پوری ہو رہی ہے۔

منگل کو اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے متنبہ کیا تھا کہ اگر حماس نے ہفتے تک یرغمال رہا نہ کیے تو وہ جنگ بندی معاہدہ ختم کر دیں گے۔ انہوں نے فوج کو لڑائی کے لیے تیار رہنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔

واضح رہے کہ امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔

جنگ بندی کے تحت پہلے مرحلے میں حماس کو 33 یرغمالی جب کہ اسرائیل کو سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کرنے ہیں جس کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ لگ بھگ 15 ماہ تک ہونے والی لڑائی کے بعد ہوا تھا۔

غزہ میں جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

امریکہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تھا جس میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس تعداد میں ہلاک ہونے والے 17 ہزار عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG