رسائی کے لنکس

گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ؛ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں چھوٹی گاڑی مہنگی کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • جنوری 2025 میں کار، پک آپ، وین، چھوٹی کمرشل گاڑیوں کے 17 ہزار یونٹ فروخت ہوئے: پاکستان آٹو موبائل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن
  • رواں برس گاڑیوں کی یہ فروخت جنوری 2024 کے مقابلے میں 73 فی صد زائد ہے: پاما
  • جنوری میں نئے ماڈلز کی دستیابی، شرح سود میں کمی اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کے سبب گاڑیوں کی فروخت بڑھی: مبصرین
  • اس وقت سالانہ 10 لاکھ سے گاڑیوں کی ڈیمانڈ ہے۔ لیکن ہم صرف سوا لاکھ بنا رہے ہیں: سربراہ آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن
  • دستیاب گاڑیاں مہنگی ہیں، لوئر مڈل کلاس یا پھر مڈل کلاس کے لیے خریدنا ناممکن ہے: ماہر آٹو سیکٹر مشہود علی خان
  • پاکستان میں ملنے والی چھوٹی گاڑی 31 لاکھ روپے میں ملتی ہے۔ یہی گاڑی بھارت میں پونے چار لاکھ روپے کی ہے: مبصرین

اسلام آباد —پاکستان میں نئے سال کے آغاز پر گاڑیوں کی فروخت بڑھی ہے۔ جنوری میں گاڑیوں کی فروخت بڑھنے سے گزشتہ سال کے مقابلے میں اس ماہ میں 73 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ نئے سال 2025 کے پہلے ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں تیزی آئی ہے۔ لیکن درحقیقت آبادی ،پوٹینشل اور ماضی کے ریکارڈ کے مقابلہ میں ابھی بھی فروخت کم ہے۔ لوکلائزیشن نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتیں ابھی بھی صارفین کی قوت خرید سے باہر ہیں۔

مارکیٹ میں موجودہ تیزی کی مبصرین مختلف وجوہات بتا رہے ہیں جن میں نئے سال کا نیا ماڈل لینے کے لیے عام لوگوں کی خواہش کے ساتھ ساتھ شرح سود میں کمی اور بیرون ملک سے آنے والی تر سیلات زر شامل ہیں۔

پاکستان آٹو موبائل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن(پاما) کے مطابق جنوری 2025 میں کاریں، پک آپ، وین، چھوٹی کمرشل گاڑیوں کے 17 ہزار یونٹ فروخت ہوئے۔ یہ فروخت جنوری 2024 کے مقابلے میں 73 فی صد زائد ہے جب کہ دسمبر 2024 کے مقابلے میں فروخت61 فی صد زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔

پاما کے مطابق رواں مالی سال کے سات ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں 55 فی صد اضافہ ہوا ہے جو 77 ہزار 686 یونٹ رہی۔گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 49 ہزار 989 یونٹ فروخت ہوئے تھے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں ٹریکٹرز کی فروخت کم ہو کر 20 ہزار 158 یونٹ رہی جو گزشتہ سال 27 ہزار 431 یونٹ تھی۔

پاما کے مطابق سات ماہ میں موٹرسائیکل اور رکشوں کی فروخت آٹھ لاکھ 35 ہزار 616 یونٹ رہی جو گزشتہ سال چھ لاکھ46 ہزار 440 یونٹ تھی۔

ملک میں صرف گاڑیاں اور موٹرسائیکل ہی نہیں بلکہ بڑی بسوں اور ٹرکس کی فروخت میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

پاما کے مطابق گزشتہ سات ماہ کے دوران فروخت والے ٹرکوں کی تعداد دو ہزار 66 رہی جو گزشتہ سال صرف 808 تھی۔

اسی طرح گزشتہ سال جولائی سے جنوری تک 1108 بسیں فروخت ہوئی تھیں جب کہ رواں مالی سال کے دوران اسی عرصے میں دو ہزار 466 بسیں فروخت ہوئی ہیں۔

پاکستان میں گاڑی بھارت کی نسبت مہنگی کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:58 0:00

فروخت میں اضافے کی وجوہات

مبصرین فروخت میں اضافے کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوری میں ایک اچھا آغاز ہوا ہے اور گاڑیوں کی فروخت میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔

ان کے مطابق اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگ نئے سال میں نئے ماڈل کی گاڑی خریدنے کے لیے دسمبر میں خریداری نہیں کرتے اور جنوری کا انتظار کرتے ہیں کیوں کہ وہ نئی گاڑی لینا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں کوئی خاص گاڑی نہیں جس کی زیادہ فروخت ہوئی ہو بلکہ چاہے وہ چینی ساختہ گاڑیاں ہوں، یا جاپانی یا پھر کورین سب گاڑیوں کی فروخت زیادہ ہوئی ہے۔

انہوں نے زیادہ فروخت کی دوسری وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے شرح سود میں کمی ہو رہی ہے۔ حکومت 12 ماہ میں شرح سود کم کرکے 24 سے 12.5 فی صد پر لے کر آئی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ جون تک یہ شرح سود سنگل ڈیجٹ یعنی 10 فی صد سے بھی کم ہو جائے گا۔یہ گاڑیاں خریدنے والوں کے لیے ایک مثبت پیغام ہے جس کی وجہ سے فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔

مشہود علی خان نے کہا کہ ان وجوہات کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ جنوری میں ملک میں آنے والے ترسیلاتِ زر میں بھی اضافہ ہوا۔

ان کے بقول تر سیلاتِ زر تین ارب ڈالر سے زائد ہوئی ہیں۔ یہ ترسیلاتِ زر گھریلو اخراجات، ریئل اسٹیٹ یا پھر گاڑیوں کی خرید میں استعمال ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے نئے سال کے آغاز پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستان میں الیکٹرک گاڑی خریدنا فائدے مند ہے یا نہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:38 0:00

گاڑیوں کی قیمت میں کمی کا عدم ممکن

مشہود علی خان کا مزید کہنا تھا کہ ایک وقت تھا کہ ملک میں صرف جاپانی گاڑیوں کی اجارہ داری تھی۔ لیکن اب چینی کمپنیاں اور ان کے علاوہ کورین کمپنیاں بھی ملک میں گاڑیاں اسمبل کررہی ہیں۔اس کی وجہ سے صارفین کو نئی گاڑیوں کے زیادہ آپشن مل رہے ہیں اور لوگ خرید رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت دستیاب گاڑیاں بھی مارکیٹ کے اعتبار سے بہت مہنگی ہیں اور ایک گاڑی لوئر مڈل کلاس یا پھر مڈل کلاس کے لیے خریدنا ناممکن ہے۔ اگر اسی انداز میں گاڑیوں کی فروخت بڑھتی رہی تو عین ممکن ہے کہ یہ دیگر ممالک کی کمپنیاں لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے لیے بھی گاڑیاں بنائیں جن سے عام شہری کے لیے گاڑی خریدنا ممکن ہوسکے گا۔

گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے مشہود علی خان کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار بجٹ میں آنے والی پالیسی پر ہوگا۔ اگر حکومت کی طرف سے گاڑیوں سے متعلق پالیسی میں ٹیکسز کم کیے جاتے ہیں اور بہتر معاشی پالیسی کے نتیجہ میں ڈالر کا ریٹ مزید کم ہوتا ہے تو اس کا فائدہ یقینی طور پر صارفین کو ملنا چاہیے۔ لیکن سردست ایسی کوئی صورتِ حال نظر نہیں آرہی کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہوسکے۔

مشہود علی خان کا کہنا تھا کہ اگرچہ گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اگر ماضی کے مقابلے میں دیکھیں تو سال 2005 سے 2008 تک اور اس کے بعد 2016 سے 2018 تک ریکارڈ تعداد میں گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔

ان کے بقول اس وقت فروخت ہونے والے یونٹس کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب تھی۔ اس وقت ہم اس کے آدھے پر ہیں اور لاکھ سے سوا لاکھ گاڑیاں سالانہ فروخت ہورہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سے چھ سال میں ہم بہت زیادہ نیچے گئے ہیں اور اب پھر بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے ٹیکس کم کیے جائیں تو امکان ہے کہ قیمت میں کمی آسکتی ہے۔

آٹوانڈسٹری کا بحران: 'گاڑی لینا پہنچ سے باہر ہوگیا ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:36 0:00

بڑی گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کے بارے میں مشہود علی خان نے کہا کہ 2017 میں پانچ ہزار سے زائد ٹرک فروخت ہوئے تھے۔ اب ہم ایک بار پھر سینکڑوں سے نکل کر دو ہزار کے فگر تک پہنچے ہیں۔ ملک میں ایس آئی آئی ایف سی کی مائننگ انڈسٹری میں تیزی کی وجہ سے ٹرکوں کی ڈیمانڈ بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ کنسٹرکشن انڈسٹری کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے سہولیات دی جارہی ہیں۔ اگر کنسٹرکشن انڈسٹری کو ریلیف ملتا ہے تو لازمی طور پر مزید ٹرکوں کی ضرورت ہو گی اور ملکی ضرورت پوری ہوسکے گی۔

ان کےمطابق اس کے ساتھ ساتھ بسوں کی بھی ضرورت ہے کیوں کہ مختلف صوبے عوامی ٹرانسپورٹ کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر صوبوں کے بجائے وفاق کی سطح پر بسوں کے حوالے سے کوئی منصوبہ بنایا جائے تو موجودہ ضرورت 600 سے 800 بسوں کی ہے اور اسے ایک ہزار سے بڑھایا جائے تو بیرون ملک سے بھی کمپنیاں کو پاکستان کے اندر بسوں کی اسمبلنگ یا مینوفیکچرنگ میں دلچسپی لے سکتی ہیں۔

گاڑیاں ڈیمانڈ ہونے کے باوجود مہنگی ہونے کی وجہ

پاکستان میں مبصرین کے مطابق گاڑیوں کی طلب موجود ہے۔ لیکن اس طلب کے باوجود اس کی قیمت زیادہ ہے۔ اس بارے میں آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ایچ ایم شہزاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں سالانہ 10 لاکھ سے زائد گاڑیوں کی ڈیمانڈ ہے۔ لیکن ابھی بھی ہم صرف لاکھ سے سوا لاکھ گاڑیاں بنا رہے ہیں اور اس پر بھی خوش ہیں۔

ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ 18-2017 میں کرونا وبا سے پہلے گاڑیوں کی سالانہ پیداوار پونے تین لاکھ کے قریب تھی اور اب ہم ایک سے سوا لاکھ تک گاڑیاں بنا رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ لوکلائزیشن کا نہ ہونا ہے۔ اگر آج سے آٹھ سال پہلے ہم موجودہ وقت سے تقریباً تین گنا گاڑیاں بنا رہے تھے تو ہم آج کم گاڑیاں بنا رہے ہیں جب کہ مارکیٹ میں پہلے صرف تین پلئیرز تھے اور اب ان کی تعداد 12 سے 13 ہوچکی ہے۔ لیکن ہماری گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہورہا۔

ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ سال 2023 میں سی کے ڈی یا سی بی یو کے لیے 10 ارب ڈالر بیرون ملک بھجوائے گئے تھے اور سال 2024 میں یہ رقم بڑھ کر 12 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ پاکستان میں موجود جاپانی کمپنیاں 40 سال سے زائد کا عرصہ گزارنے کے بعد آج بھی صرف اسمبلنگ کررہی ہیں۔ ان کے ملک میں کام کے آغاز پر جو معاہدے ہوئے تھے ان کے مطابق انہیں پانچ سال کے عرصہ میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ساتھ ملک کے اندر مینوفیکچرنگ کرنا تھی۔ لیکن آج بھی ان کی سی کے ڈی کٹس بیرون ملک سے آرہی ہیں اور اس کے بدلے میں ڈالرز بیرون ملک جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ملنے والی چھوٹی گاڑی 31 لاکھ روپے میں ملتی ہے اور یہی گاڑی بھارت میں پونے چار لاکھ روپے کی ہے۔

'گھر والوں سے روز جھوٹ بولنا پڑتا ہے کہ آج راشن لے آؤں گا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:33 0:00

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی روپے میں یہی گاڑی 12 لاکھ کی بنتی ہے۔ لیکن یہاں پر 30 لاکھ سے زائد میں بک رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ لوکلائزیشن نہ ہونا ہے۔

ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ 24 کروڑ آبادی میں 10 لاکھ نئی گاڑیاں فروخت ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور یہ ٹارگٹ باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مارکیٹ میں سالانہ آنے والی ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار اور نئی گاڑیوں کی تعداد سوا لاکھ کے قریب ہے۔ ایسے میں چھ لاکھ سے زائد پرانی گاڑیوں کا لین دین ہوتا ہے اور لوگ اپنی ضرورت کے لیے نئی گاڑی کے بجائے پرانی گاڑی بیچ کر اس میں مزید کچھ پیسے شامل کرکے اپ گریڈ ماڈل کی سیکنڈ ہینڈ گاڑی لیتے ہیں۔

ایچ ایم شہزاد کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں لوکل گاڑیاں نہیں بنیں گی اس وقت تک نہ گاڑیوں کی قیمت میں کمی آ سکتی ہے اور نہ ہی اس میں مقابلہ پیدا ہوسکتا ہے۔

ان کے بقول تین بڑی کمپنیوں کے علاوہ نئی کمپنیوں کے آنے سے امید ہوئی تھی کہ اس سے کچھ بہتری آئے گی۔ لیکن یہ کمپنیاں بھی ملک میں پہلے سے موجود کمپنیوں کی طرح صرف اسمبلنگ کر رہی ہیں۔ اس وجہ سے نئی کمپنیوں کے ملک میں آنے اور گاڑیاں بننے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔

XS
SM
MD
LG