رسائی کے لنکس

وزیرِ اعظم مودی کا دورۂ واشنگٹن: 'بھارتی مصنوعات پر امریکی ٹیکس تجارت کے لیے اچھا نہیں'


  • تہور رانا کے معاملے میں تو بھارت کامیاب رہا لیکن تجارت کے سلسلے میں وزیرِ اعظم مودی کے دورۂ امریکہ کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا، تجزیہ کار
  • صدر ٹرمپ کاغیر ملکی مصنوعات پر باہمی مساوی ٹیکس لگانے کا اعلان پریشان کن ہے اور اس سے بھارتی تجارت پر اثر پڑے گا، پشپ رنجن
  • صدر ٹرمپ کے اعلان کے فوراً بعد ہی بھارتی شیئر مارکیٹ میں گراوٹ آگئی تھی، پشپ رنجن
  • دونوں ملکوں کے درمیان پانچ سال کے اندر باہمی تجارت 500 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان معدوم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے یہ ہدف مقرر کیا ہے، وویک شکلا
  • بھارت کو فائٹر جیٹ سپلائی کرنے کے معاملے میں امریکہ اور روس کے درمیان ایک طرح کا مقابلہ ہے، وویک شکلا

نئی دہلی _بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا حالیہ دورٔ امریکہ ان دنوں مقامی ذرائع ابلاغ میں موضوعِ بحث ہے اور اسے ایک کامیاب دورہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے خیال میں تجارتی لحاظ سے یہ دورہ اتنا مفید نہیں رہا۔

وزیرِ اعظم مودی نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی تھی۔

وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ امریکہ اسٹرٹیجک اور بھروسے مند شراکت دار کی حیثیت سے بھارت کی دفاعی تیاریوں میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں مشترکہ طور پر اسلحہ سازی، مشترکہ پیداوار اور ٹیکنالوجی کے ٹرانسفر کی سمت میں تیزی سے آگے بڑھیں گے۔

امریکہ اور بھارت نے ہتھیاروں کی منتقلی کے ضوابط بشمول بین الاقوامی ٹریفک اِن آرمز ریگولیشن کا جائزہ لینے پر اتفاق کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد دفاعی تجارت، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور بھارت میں امریکی فوجی ساز و سامان کی دیکھ بھال کو آسان بنانا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان جہاں تک تجارت کا معاملہ ہے تو صدر ٹرمپ نے بھارت کو 'ٹیرف کنگ' کہا تھا۔ ان کے بقول بھارت امریکہ کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ محصولات والا ملک ہے۔

سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کے مطابق وزیرِ اعظم مودی کا دورۂ امریکہ ’کبھی خوشی کبھی غم‘ جیسا ثابت ہوا ہے۔ان کے بقول تہور رانا کے معاملے میں تو بھارت کامیاب رہا لیکن تجارت کے سلسلے میں اس دورے کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی مصنوعات پر باہمی مساوی ٹیکس لگانے کا اعلان پریشان کن ہے اور اس سے بھارتی تجارت پر اثر پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے اعلان کے فوراً بعد ہی بھارتی شیئر مارکیٹ میں گراوٹ آگئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت امریکی موٹر سائیکلوں پر 100 فی صد ٹیکس لگاتا ہے جب کہ امریکہ بھارتی موٹر سائیکلوں پر تقریباً ڈھائی فی صد ٹیکس لیتاہے۔

بھارت کی وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن نے یکم فروری کو جب بجٹ پیش کیا تو اس میں بعض مصنوعات پر ٹیکس کم کر دیا تھا۔ پشپ رنجن کے مطابق یہ اقدام امریکہ کو خوش کرنے کے لیے تھا۔

ان کا خیال ہے کہ ٹیرف کے حوالے سے دونوں ملکوں کی تجارت جس رخ پر جانے والی ہے وہ مستقبل میں بھارتی تجارت کے لیے اچھا نہیں ہے۔

ماہرین کے مطابق جب بھارتی مصنوعات پر امریکہ میں زیادہ ٹیکس لگایا جائے گا تو ان مصنوعات کے خریدار کم ہو جائیں گے اور اس سے سپلائر بھی متاثر ہوں گے۔

صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی نے باہمی تجارت کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور دونوں رہنماؤں نے 2030 تک اسے 500 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

تجزیہ کار وویک شکلا کے مطابق یہ آسان نہیں ہے۔پانچ سال کے اندر باہمی تجارت 500 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان بہت معدوم ہے۔ان کے بقول، ایسا لگتا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے یہ ہدف مقرر کیا ہے۔

پشپ رنجن بھی اسے ناقابل حصول ہدف قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل امریکہ اپنے تجارتی خسارے کو کم کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ وقت بتائے گا کہ یہ خسارہ کتنا کم ہوگا۔

وویک شکلا کے مطابق امریکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کو بے اثر کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ انڈیا مڈل ایسٹ یوروپ اکانومک کوریڈور (آئی ایم ای سی)کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو بھارت امریکہ باہمی تجارت کی راہ میں کوئی دشواری پیدا نہیں ہوگی۔

انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:51 0:00

آئی ایم ای سی بھارت اور یورپ کے درمیان مشرقِ وسطیٰ سے گزرتے ہوئے ایک مجوزہ اقتصادی راہداری ہے جس کا اعلان سال 2023 میں بھارت میں ہونے والی جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے دوران کیا گیا تھا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ای سی سے خلیج عرب اور یوروپ کے درمیان رابطوں کو زبردست فروغ حاصل ہوگا اور ترقی بھی ہوگی۔ اسے مجوزہ منصوبے کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے مقابلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بھارت ہتھیاروں کی بڑی مارکیٹ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت ہتھیاروں کی ایک بڑی مارکیٹ ہےاور کئی ممالک بھارت کو توانائی اور ہتھیاروں کی سپلائی کرنا چاہتے ہیں۔

وویک شکلا کے مطابق بھارت کو فائٹر جیٹ سپلائی کرنے کے معاملے میں امریکہ اور روس کے درمیان ایک طرح کا مقابلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اب تک سب سے زیادہ ہتھیار روس سے خریدتا تھا لیکن امریکہ چاہتا ہے کہ وہ اس سے دفاعی ساز و سامان زیادہ خریدے۔ وہ انرجی کے شعبے میں بھی اشتراک کو فروغ دینے کے حق میں ہے۔

وویک شکلا نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کو اہم قرار دیا کہ امریکہ رواں برس بھارت کے ساتھ اپنے ہتھیاروں کی فروخت میں نہ صرف اضافہ کرے گا بلکہ اس سے بھارت کو ایف۔35 اسٹیلتھ فائٹر جیٹ کی فراہمی کی راہ بھی ہموار ہو گی۔

تجزیہ کار پشپ رنجن ایلون مسک سے وزیر اعظم مودی کی ملاقات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ مودی نے خود ہی ان سے ملاقات کے لیے وقت مانگا جو کہ ایک سربراہ ملک کو زیب نہیں دیتا۔

ان کے خیال میں ایلون مسک بھارتی مارکیٹ میں آنا چاہتے ہیں۔ بھارت میں الیکٹرک گاڑیوں کی بڑی مانگ ہے۔

ان کے خیال میں بھارت جس طرح سمجھوتے کر رہا ہے اس کے نتیجے میں بھارت امریکی تاجروں کی ایک کالونی بن جائے گا۔

امریکی صدر سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کے انتخابی نعرے میک امریکہ گریٹ اگین (ایم اے جی اے) کے طرز پر میک انڈیا گریٹ اگین(ایم آئی جی اے) کی اصطلاح استعمال کی ۔ پشپ رنجن کے خیال میں یہ نقالی ہے اسے سنجیدہ سفارت کاری نہیں کہا جا سکتا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے پر بھی بھارت کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔

پشپ رنجن نے کہا کہ امریکہ نے بھارتی غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملٹری طیارے میں ہتھکڑیاں لگا کر بھیجا جو کہ بھارت کے لیے باعثِ ندامت ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس معاملے پر پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے پابندیوں کو امریکی ایس او پی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو لینے پر تیار ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG