رسائی کے لنکس

امریکہ کا ممبئی حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز تہور رانا کی حوالگی کا اعلان: یہ بھارت کے لیے کتنا اہم ہے؟


صدر ٹرمپ نے بھارت کے وزیرِ اعظم سے ملاقات کے دوران تہور رانا کو بھار ت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔

نئی دہلی کے تجزیہ کار اسے بھارت کی بڑی سفارتی کامیابی تصور کر رہے ہیں۔

تہور حسین رانا کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی اور وہ میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی فوج کی میڈیکل کور میں شامل ہو گئے تھے۔

ممبئی حملوں کے دوران چھ امریکی شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ان کی ہلاکت میں مدد کرنے کے الزام میں تہور رانا کو سزا سنائی گئی تھی۔

تہور رانا اس وقت لاس اینجلس میں میٹروپولیٹن ڈٹینشن سینٹر میں قید ہیں۔

نئی دہلی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2008 کے ممبئی حملوں کے مبینہ منصوبہ سازوں میں سے ایک تہور حسین رانا کو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ نئی دہلی کے تجزیہ کار اسے بھارت کی بڑی سفارتی کامیابی تصور کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے بعد کہا تھا کہ امریکہ ممبئی حملوں کے منصوبہ سازوں میں سے ایک کو بھارت کے حوالے کر رہا ہے۔اس پر وزیر اعظم مودی نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

یاد رہے کہ 26 نومبر 2008 کو 10 دہشت گردوں نے ممبئی کے تاج ہوٹل سمیت کئی عمارتوں پر بیک وقت حملہ کیا تھا جس میں 166 افراد اور نو حملہ آور ہلاک ہوئے تھے۔

بھارتی سیکیورٹی فورسز نے طویل کوشش کے بعد ایک حملہ آور اجمل قصاب کو زندہ پکڑا تھا جس کے خلاف بھارتی عدالت میں مقدمہ چلا تھا اور اسے 2012 میں پھانسی دی گئی تھی۔

بھارت کا الزام ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان کی شدت پسند تنظیم لشکرِ طیبہ سے تھا۔ خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پاکستان کی حکومت اس میں ملوث ہونے کی تردید کرتی ہے۔

ممبئی پولیس نے اس معاملے میں اپنی 400 سے زیادہ صفحات پر مشتمل فردِ جرم میں تہور حسین رانا کا ذکر کیا ہے۔

اس فردِ جرم میں کہا گیا ہے تہور رانا 11 نومبر 2008 کو بھارت آئے تھے اور 21 نومبر تک ملک میں ہی رہے تھے۔ انہو ں نے ممبئی کے پوئی علاقے کے ایک ہوٹل میں دو روز قیام کیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ممبئی پولیس کو ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اور تہور رانا کے درمیان ہونے والی ای میل کے بارے میں معلوم ہو ا تھا جس میں سے ایک ای میل ممبئی حملوں کے بارے میں تھی۔ ہیڈلی نے میجر اقبال کے ای میل کے بارے میں استفسار کیا تھا۔

ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ایک پاکستانی امریکی شہری ہیں۔ ان کے خلاف بھارتی ایجنسیوں کی تحقیقات میں ایک نام بار بار آرہا تھا اور جو تہور حسین رانا کا تھا۔

امریکی شہر شکاگو میں تہور رانا کے خلاف عدالتی کارروائی کے دوران ہیڈلی سرکاری گواہ بن گئے تھے۔

رپورٹس کے مطابق میجر اقبال پاکستانی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے عہدے دار تھے۔ ممبئی پولیس نے ان کا نام بھی ملزمان کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

بھارت ایک عرصے سے تہور رانا کی حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا تھا۔

سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کا خیال ہے کہ اس اعلان کو بھارت کی بڑی کامیابی مانا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاحال تہور رانا کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران نریندر مودی نے ممبئی حملوں کو 'نسل کشی' قرار دیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرکے امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش بھی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو دہشت گردی کے خلاف دونوں رہنماؤں کے مشترکہ مؤقف کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اسلامی دہشت گردی کا حوالہ دینے کو بڑی بات مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اس سابقہ موقف کا اعادہ ہے کہ اسلامی دہشت گردی پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔

ان کے خیال میں اس مؤقف میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی یا تشدد کی مذمت یا اس کے خلاف کارروائی کی کوئی بات نہیں ہے۔

ان کے بقول ابھی تک اس بارے میں کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں کہ دونوں رہنماؤں نے بات چیت کے دوران بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا کوئی ذکر کیا ہو۔

بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہور رانا کی حوالگی کا اعلان تو کیا گیا لیکن بھارت کو مطلوب بعض دیگر مبینہ دہشت گردوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

تجزیہ کار پشپ رنجن نے بعض ذرائع کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکہ کو 12 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست سونپی تھی جن میں اکثریت خالصتان تحریک کے مبینہ کارکنوں کی تھی۔

تہور رانا کون ہے؟

تہور حسین رانا کا جنم پاکستان میں ہوا تھا اور وہ میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی فوج کی میڈیکل کور میں شامل ہو گئے تھے۔

ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہیں۔ تہور اور وہ 1997 میں کینیڈا منتقل ہوگئے تھے جس کے بعد 2001 میں انہیں کینیڈا کی شہریت مل گئی تھی۔

رپورٹس کے مطابق سال 2009 میں اپنی گرفتاری سے قبل تہور نے امریکہ کے شہر شکاگو میں ایک امیگریشن اینڈ ٹریول ایجنسی کھولی تھی۔

شکاگو میں چلنے والی عدالتی کارروائی کے دوران یہ انکشاف ہوا تھا کہ ڈیوڈ ہیڈلی اور تہور رانا دونوں دوست رہے ہیں۔ ہیڈلی 2006 سے 2008 کے درمیان کئی بار ممبئی آئے تھے جہاں انہوں نے تہور رانا کی ایجنسی کی ایک شاخ کھولی تھی۔

ممبئی حملوں کے دوران چھ امریکی شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ان کی ہلاکت میں مدد کرنے کے الزام میں تہور رانا کو سزا سنائی گئی تھی۔

امریکی تحقیقاتی ایجنسی 'فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن' (ایف بی آئی) نے رانا اور ہیڈلی کو 2009 میں شکاگو ایئر پورٹ پر گرفتار کیا تھا۔

تہوار رانا کے خلاف امریکی عدالت میں کارروائی کے دوران ایک عدالت نے انہیں بھارت کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف رانان نے نظرثانی اپیل دائر کی تھی۔

تاہم رواں سال 21 جنوری کو سپریم کورٹ نے تہور رانا کی نظرثانی کی اپیل خارج کردی تھی جس کے بعد ان کی بھارت حوالگی کا راستہ ہموار ہو گیا تھا۔

اس معاملے پر امریکی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور امریکی قوانین کے مطابق محکمۂ خارجہ اگلے قدم کے بارے میں غور کر رہا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم بھارت کی اس کوشش کی حمایت کرتے رہے ہیں کہ ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

رانا اس وقت لاس اینجلس میں میٹروپولیٹن ڈٹینشن سینٹر میں قید ہیں۔

بھارتی میڈیا رپورٹس میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بھارتی ایجنسیاں تہور رانا کو بھارت لانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اس بارے میں قانونی دستاویزات اور وارنٹ جاری کرکے امریکی اہل کاروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

نشریاتی ادارے 'نیوز 18' کے مطابق تہاڑ جیل میں بھی کافی ہلچل ہے اور رانا کو اس جیل میں کہاں رکھا جائے اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اب جب کہ دونوں رہنماؤں نے سیاسی فیصلہ کر لیا ہے تو فریقین تاریخ اور وقت کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ اس سلسلے میں امریکی وزارتِ خارجہ سے رابطے میں ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ وزارتِ خارجہ سے منظوری ملتے ہی 'نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی' (این آئی اے) کے اہل کاروں کی ایک ٹیم کے امریکہ جانے کا امکان ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG