|
اہرام مصر سے نکلنے والی ممیاں دنیا کے کئی عجائب گھروں میں موجود ہیں جنہیں ہزاروں برس قبل ممی سازوں نے اس لیے محفوظ کیا تھا کہ ایک روز ان کی روح اپنے جسم میں واپس آئے گی اور وہ پھر سے جی اٹھیں گے۔
جب کوئی چیز بہت پرانی ہو جائے تو اس میں سے ایک طرح کی بو آنے لگتی ہے، لیکن حال ہی میں سائنس دانوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان ممیوں کو خاص قسم کی خوشبوؤں میں بسایا جاتا تھا اور ہزاروں سال گزر جائے کے بعد بھی ان کی خوشبو کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
یونیورسٹی کالج آف لندن کے آثار قدیمه سے متعلق ایک ادارے (Institute for Sustainable Heritage) کی ڈائریکٹر سیلسیا بیمبیبر کہتی ہیں کہ ہم کتابوں اور فلموں میں یہ دیکھتے ہیں کہ قدیم ممیوں کے قریب جانے سے خوفناک واقعات رونما ہوتے ہیں، لیکن ان سے اٹھنے والی خوشگوار خوشبو پر ہمیں حیرت ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ممیوں کو بناتے وقت ایسے عطریات جیسی خوشبوئیں استعمال کی گئیں تھیں، جو لکڑی ،مصالحوں اور میٹھے پن کا احساس جگاتی ہیں۔ ان میں ان پھولوں کا بھی تاثر ملتا ہے اور وہ خوشبوئیں صنوبر اور اسی قسم کے ایک اور درخت کی خوشبو جیسی ہیں۔
حال ہی میں جرنل آف امریکن کیمیکل سوسائٹی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تحقیق میں کیمیائی تجزیے اور سونگھنے کی انسانی حس، دونوں کا ہی استعمال کیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ تجربہ پانچ ہزار سال پرانی ان ممیوں پر کیا گیا جو قاہرہ کے مصری عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھی گئیں تھیں یا وہ اس کے اسٹور میں محفوظ تھیں۔
میمبیبر اس تحقیقی رپورٹ کے مصنفین میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم منظم طریقے سے ممیوں کی بو کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ طویل عرصے سے محققین اور عام لوگوں کی اس میں یکساں دلچسپی رہی ہے۔ حتی کہ آثارقدیمہ کے ماہرین، تاریخ دانوں اور ادب تحلیق کرنے والوں نے بھی اسے اپنا موضوع بنایا ہے۔
ممیوں کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے تیل، موم اور بام استعمال کیا جاتا تھا جب کہ انہیں خوشبو میں بسایا جاتا تھا کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق خوشبو کا تعلق پاکیزگی اور دیوتاؤں سے تھا۔ جب کہ بدبو کو برائی اور زوال کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
خوشبو کا استعمال زیادہ تر فرعونوں اور امیر کبیر افراد کی ممیوں میں کیا جاتا تھا۔
اگرچہ ممی بنانے والوں نے انہیں ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا تھا، لیکن وقت کا سفر ہر چیز کو شکست و ریخت سے آشنا کر دیتا ہے۔ قدیم ممیاں بھی اب اس قدرتی عمل سے گزر رہی ہیں اور بیکٹیریا اور دوسرے عوامل ان کے گلنے سڑنے کا سبب بن رہے ہیں۔
سلواکیا کی یونیورسٹی آف لوبلیانا میں کیمسڑی کے پروفیسر ماتیا سٹرلک کہتے ہیں کہ مخصوص قسم کے تابوتوں میں رکھی ممیوں کے خراب ہونے کےباوجود ان میں خاص قسم کی خوشبوؤں کا کھوج ملتا ہے جس سے یہ پتہ چلتا کہ انہیں محفوظ بنانے میں کیا چیزیں استعمال کی گئیں تھیں۔
پروفیسر سٹرلک نے بتایا کہ ہم نے سائنسی آلات سے ممیوں کو چھوئے بغیر ان سے خارج ہونے والی ہوا کے مالیکیولز کی پیمائش کی، جس کے نتائج بڑے دلچسپ تھے ۔ مثلاً یہ کہ ممی کا تعلق کس سماجی طبقے سے تھا کیونکہ ہوا کے مالیکولز ان چیزوں کی جانب اشارہ کرتے تھے جنہیں ممی کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
جرمنی میں واقع بشریات سے متعلق ایک تحقیقی ادارے میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ کی ایک ریسرچر باربرا ہوبر، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں، کہتی ہیں کہ اس تحقیق سے حاصل ہونے والا ڈیٹا اہمیت کا حامل ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ممی بنانے میں استعمال کیے جانے والے مرکبات اسے محفوظ رکھنے میں کس حد تک مؤثر ثابت ہوئے۔
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ان ممیوں میں سے بعض میں جو خراب بو آتی ہے، ضروری نہیں ہے کہ وہ اس وقت بھی موجود ہو جب ممی بنائی جا رہی تھی ، کیونکہ ہزاروں برسوں کے دوران بخارات بننے کے عمل، آکسیڈیشن اور دوسری کیمیائی تبدیلیوں سے خوشبو کی ہیت تبدیل ہونا ممکن ہے۔
ہزاروں سال قبل ممی سازی کے دوران استعمال کی جانے والی کئی خوشبوئیں اتنی پائیدار ہیں کہ وہ پانچ ہزار سال کے بعد بھی اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم