ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم ہاتھ سے کاغذ پر لکھتے ہیں تو وہ تحریر صرف کاغذ پر ہی نہیں بلکہ ہماری یاداشت میں بھی نقش ہو رہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو طالب علم ہاتھ سے نوٹس تیار کرتے ہیں، وہ انہیں ان طالب علموں کی نسبت بہتر طور پر یاد رہتے ہیں جو انہیں ٹائپ کرتے ہیں۔
الیکسی بوگن اب اپنے فون کی مدد سے بولنے کے قابل ہو گئی۔ لیکن بولنے کا طریقہ مختلف ہے۔ اسے جو کچھ کہنا ہوتا ہے، وہ اسے فون پر ٹائپ کرتی ہے اور ایپ اسے پڑھ کر بوگن کی آواز میں ادا کر دیتا ہے۔
آپ گوگل پر اگر کچھ سرچ کریں تو آپ کو آل کے ساتھ ساتھ امیجز، ویڈیوز، نیوز اور دیگر آپشن نظر آتے ہیں۔ لیکن اب صارفین کو ایک اور فلٹر 'ویب' کے نام سے بھی نظر آئے گا۔
سائنس دانوں نے اس سیارے کو ڈبلیو اے ایس پی۔ 193 بی کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سیارے سے سیاروں کی تشکیل اور ان کے ارتقائی مراحل کے مطالعے میں مدد ملے گی۔
نئے اسسٹنٹ میں موجود آڈیو کی صلاحیت کے تحت صارف چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے جو بغیر کسی تاخیر کے آڈیو میں ہی جواب دے گا۔
روبوٹس اور خود کار ٹیکنالوجیز پہلے ہی ملازمتوں کو متاثر کر رہی ہیں لیکن اب ماہرین کا کہنا ہے کہ تخلیقی مصنوعی ذہانت یا جینریٹیو اے آئی اب ایسے شعبوں میں داخل ہو رہی ہے جن پر مکمل طور پر انسان انحصار کرتے ہیں۔ مزید تفصیلات اس رپورٹ میں۔
مختصر ویڈیوز کی ایپ ٹک ٹاک نے کہا ہے کہ وہ مخصوص پلیٹ فارمز سے اپ لوڈ ہونے والے مصنوعی ذہانت سے تیارکردہ مواد پر لیبل لگائے گی۔
اسلام آباد میں آب وہوااورماحولیات کےایک محقق ڈاکٹر ضیا ہاشمی کہتے ہیں کہ پاکستان کے مختلف مقام پرواقع گلیشئیرزیکساں رفتار سے نہیں پگھل رہے۔ کوہ قراقرم کے سلسلے کے مرکزی یا شمال مشرق کے گلیشئیرز یا تو مستحکم ہیں یا بڑھ رہےہیں اور مغربی قراقرم اور ہندو کش میں گلیشئیرز کے پگھلنے کی رفتار تیز ہے ۔
چیٹ جی پی ٹی کے خلاف صحافتی اداروں کی جانب سے کاپی رائٹس کے مقدمات سامنے آرہے ہیں۔ آٹھ امریکی اخبارات نے چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی اور مائیکروسافٹ کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ کیا واقعی اے آئی سے حاصل کی گئی معلومات پلیجریزم یعنی سرقہ کے زمرے میں آتی ہیں؟ جانتے ہیں ارم عباسی سے
پاکستان نے چین کے خلائی مشن کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سیٹیلائٹ بھی چاند کی طرف روانہ کیا ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی پاکستان کا کارنامہ ہے یا کوئی عام سا مشن۔ جانیے سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی اس رپورٹ میں۔
زرعی شعبے میں خاص طور پر دور دراز علاقوں میں جہاں بجلی موجود نہیں ہےکسان شمسی توانائى پیدا کر کے ٹیوب ویل اور دوسرے آلات چلا نے میں مدد لے رہے ہیں۔۔ مرتضیٰ زہری نے ایک ایسے کسان سے بات کی جس کے پھلوں کے درخت پانی کی کمی کی وجہ سے خشک ہونے کے قریب تھے مگر شمسی توانائی نے انہیں بچا لیا
ایک حالیہ سروے کے مطابق نصف کے قریب بزنس مالکان مستقبل کے لئے چیٹ جی پی ٹی کی مہارت کو ڈگری سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس اہمیت میں 2025 سے مزید اضافہ ہوتا جائے گا، اس ٹرینڈ کے بارے میں جانیے آعیزہ عرفان سے
مزید لوڈ کریں
No media source currently available