رسائی کے لنکس

پاکستان اور چین میں خلائی تحقیق کے تعاون میں اضافہ؛ کیا امکانات اور خدشات ہیں؟


  • چین میں پاکستان کے پہلے خلاباز کو تربیت دی جائے گی جو خلا میں موجود ’تیانگونگ اسپیس اسٹیشن‘ پر خدمات انجام دے گا۔
  • چین کے چاند پر 2028 میں جانے والے مشن ’چانگی 8‘ میں پاکستان کی ایک خلائی گاڑی شامل ہوگی۔
  • گزشتہ برس چین پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ چاند کے مدار میں پہنچا چکا ہے۔
  • مبصرین کے مطابق پاکستان کو چین کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ملک میں تحقیق کے فروغ پر زور دینا ہوگا۔

چین اور پاکستان میں خلائی تحقیق میں تعاون بڑھ رہا ہے۔ البتہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان چین کے خلائی تحقیق میں تعاون سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسے اپنی صلاحیتوں کو بھی بہتر کرنا ہوگا۔

پاکستان کی خلائی تحقیق کے ادارے 'اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیر ریسرچ کمیشن'(سپارکو) اور چین کی مینڈ اسپیس ایجنسی (سی ایم ایس اے) نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے پہلے خلاباز کو تربیت دی جائے گی تا کہ وہ چین کےخلا میں موجود 'تیانگونگ اسپیس اسٹیشن' پر جا سکے۔

یہ معاہدہ اس اعلان کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا جب دونوں ممالک نے کہا تھا کہ 2028 میں چین کے چاند پر جانے والے مشن'چانگی 8' میں پاکستان کی ایک خلائی گاڑی یعنی روور شامل ہوگی۔

چین نے گزشتہ برس پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ چاند کے مدار میں پہنچایا تھا ۔ چین کا چانگی-6 مشن پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ آئی کیوب-کیو لے کر گیا تھا، پاکستان اس سیٹلائٹ سے چاند کے کم دریافت شدہ حصے سے نمونوں کے حصول کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

اس کے کچھ ہفتوں بعد بیجنگ نے ایک اور پاکستانی سیٹلائٹ کو مدار میں پہنچایا ہے یہ سیٹلائٹ کمیونی کیشن کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بیجنگ کے ساتھ حالیہ معاہدے کے بعد پاکستان پہلا ملک بن گیا ہے جس کا کوئی خلا باز چین کے تیانگونگ اسپیس اسٹیشن پر کام کر رہا ہے۔

مبصرین کے مطابق پاکستان کے خلا باز کو چین کے اسپیس اسٹیشن کے پہلے مہمان کے طور پر منتخب کرنا حیران انگیز نہیں ہے کیوں کہ پاکستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا میزبان بھی ہے۔

اس کئی ارب ڈالر کے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کے متعدد منصوبے شامل ہیں جو ترقی پذیر ممالک میں چین کے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ’فری یونیورسٹی آف برسلز‘ کے اسپیس ٹیکنالوجی کے ریسرچ اینڈ انجینئرنگ سینٹر کے ڈائریکٹر کارلو آئیوریو کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر مفادات کی بڑھتی ہوئی تقسیم میں چین سیاسی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے گلوبل ساؤتھ کا رہنما بننے کی کوشش کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کارلو آئیوریو کا مزید کہنا تھا کہ تو یہ خیال بالکل سیدھا سا ہے کہ چین کے اسپیس اسٹیشن پر تربیت کے لیے جانے والے ابتدائی خلابازوں میں پاکستانی خلاباز شامل ہو سکتا ہے۔

چین نے گزشتہ سال اکتوبر میں خلائی تحقیق کے لیے اپنے 25 سالہ منصوبہ کا اعلان کیا تھا جس میں خلائی تحقیق کے لیے اس کے وژن کی وضاحت کی گئی تھی۔

چین نے اس منصوبے میں خلا میں زندگی کی تلاش، مریخ، زہرہ اور مشتری پر تحقیق، چاند پر خلا باز اتارنے اور تحقیق کے لیے ایک بین الاقوامی ریسرچ اسٹیشن کی تعمیر شامل تھی۔

پاکستان کی جانب سے جاری چین کی مینڈ اسپیس ایجنسی (سی ایم ایس اے) کے ڈائریکٹر جنرل لن ژی چیانگ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کے اسپیس اسٹیشن پروگرام میں پاکستان کی شرکت سے دونوں ممالک کے گہرے تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔

انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ پاکستان کی شمولیت سے معلومات کے باہمی تبادلے اور انسانیت کے لیے پرامن خلائی تحقیق کے وسیع تر وژن میں معاونت ہوگی۔

چین کے ساتھ تعاون پاکستان کے لیے ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات اور مہارت کے تک رسائی ممکن بناتا ہے کیوں کہ چین نے چاند کے دور دراز حصے پر پہلی بار لینڈنگ کی اور اس کے ساتھ مریخ پر بھی خلائی گاڑی یعنی روور اتار چکا ہے۔

پاکستان کے خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو میں ہیومن اسپیس فلائٹ کوآپریشن کے سیکریٹری عامر گیلانی کہتے ہیں کہ چین کے پاس ہر قسم کے سیٹلائٹ ڈیزائن کرنے اور بنانے کی صلاحیت ہے جب کہ وہ کسی بھی قسم کے سیٹلائٹ خلا میں لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو می عامر گیلانی نے مزید کہا کہ پاکستان ریموٹ سینسنگ، کمیونی کیشن، خلا کی گہرائی میں تحقیق، چاند پر جانے والے مشنز کے لیے سیٹلائٹ کے ڈیزائن اور ڈویلپمنٹ میں خود انحصاری چاہتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین کے ساتھ تعاون سے خلا کے حوالے سے پاکستان کی خواہشات کو آگے بڑھانے میں معاونت بہتر انداز سے ہو سکتی ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چین کے ساتھ خلائی تعاون کو خلائی سفر میں ایک فیصلہ کن لمحہ قرار دیا ہے۔ لیکن مبصرین کا کا کہنا ہے کہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک چین کے ساتھ اس تعاون سے اس وقت ہی فائدہ اٹھا سکے گا جب وہ اس میں برابر کا شراکت دار ہو۔

متحدہ عرب امارات کی ’خلیفہ یونیورسٹی‘ میں ایرواسپیس انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر یارجان عبد الصمد کہتے ہیں کہ میں برابری کی بنیاد پر تعاون دیکھنا چاہتا ہوں۔

اسسٹنٹ پروفیسر یارجان عبد الصمد کیمبرج یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان ابھی اگرچہ برابری کی بنیاد پر حصہ نہیں ڈال سکتا۔ لیکن اسے مستقبل قریب میں ایسا کرنے کا ہدف رکھنا ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں یارجان عبد الصمد کا پاکستان کے حوالے سے کہنا تھا کہ اگر آپ ان منصوبوں میں شامل ہیں اور آپ صرف وصول کرنے والے ہیں تو آپ کو وہ سروسز تو ملتی ہیں جو آپ نے طلب کی ہیں۔ لیکن آپ کی ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی بہت محدود ہوتی ہے۔

انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) اور چین کا تیانگونگ اسپیس اسٹیشن اس وقت زمین کے مدار میں موجود صرف دو خلائی اسٹیشن ہیں۔

انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن 15 ممالک کے اشتراک سے چل رہا ہے جب کہ یہ 2030 میں ریٹائر ہونے والا ہے۔

امریکہ کی نجی خلائی تحقیق کی کمپنی ’اسپیس ایکس‘ کے مالک اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر ایلون مسک نے حال ہی میں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کو جلد ختم کرنے اور مریخ کے لیے مشن تیز کرنے کے حق میں بیانات دیے ہیں۔

خلائی تحقیق کے لیے جیسے جیسے نجی ادارے آگے بڑھ رہے ہیں اس صورتِ حال پر کارلو آئیوریو کہتے ہیں کہ اس سے چین کا تیانگونگ اسپیس اسٹیشن آنے والے برسوں تک مزید تجربات اور دیگر سرگرمیوں کے لیے واحد اسپیس اسٹیشن رہ جائے گا جو کہ خلائی تحقیق کا واحد سرکاری اسٹیشن ہوگا۔

ترقی پذیر ممالک کے لیے چین کے ساتھ تعاون ایک پرکشش معاملہ ہے۔ تاہم پروفیسر یارجان عبد الصمد کہتے ہیں کہ پاکستان کو خلاباز کو خلا میں بھیجتے وقت قومی فخر سے زیادہ سوچنا چاہیے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے خلا باز کو خلا میں بھیجنا اس وقت بامعنی ہوگا جب وہ اس کام میں مدد کریں جو بغیر انسان کی گاڑیوں سے اور زمینی حالات میں ممکن نہیں ہیں اور جو ٹیکنیکل مسائل کے حل کی تلاش میں مدد دیں۔

سپارکو کا کہنا ہے کہ اس مشن میں مختلف شعبہ جات میں جدید سائنسی تجربات شامل ہوں گے جن میں بائیولوجیکل اور میڈیکل سائنس، ایرواسپیس، اپلائیڈ فزکس، خلائی تابکاری، میٹریل سائنس، مائیکروگریویٹی اسٹڈیز اور فلکیات شامل ہیں۔

چین پاکستان میں سی پیک کے تحت توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری یا قرضوں کی صورت میں ادائیگی کر چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کی معیشت اس کے باوجود بہتر نہیں ہو سکی۔ معاشی ماہرین اس کی بڑی وجہ طرز حکمرانی کے مسائل کو قرار دیتے ہیں۔

کارلو آئیوریو کہتے ہیں کہ پاکستان کو خود کو ٹیکنالوجی کے میدان میں مضبوط کرنا ہوگا۔ ورنہ اسے اپنے بہترین حصے کو کھونے کا اندیشہ موجود ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں تحقیق کی حمایت نہیں کی جائے گی تو اس سے ملک کا بہترین ٹیلنٹ دوسرے ممالک میں منتقل ہو جائے گا جن میں چین بھی شامل ہے۔

پاکستان میں شہری اس وقت پرجوش ہیں کیوں کہ سپارکو ملک کے اس پہلے خلاباز کی تلاش ہے جو چین کے اسپیس اسٹیشن میں جا سکے۔

خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو میں ہیومن اسپیس فلائٹ کوآپریشن کے سیکریٹری عامر گیلانی کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے شہریوں میں سے ہی خلا بازوں کا انتخاب کرے گا جن کے پسِ منظر خلا بازی کے لیے موزوں ہوں گے۔

وہ اس کا معیار بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں پرواز کرنے کی اہلیت، میڈیکل فٹنس، فزیکل فٹنس، سائیکلوجیکل فٹنس، تحقیق اور تجزیے کی مہارت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قابلیت شامل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عامر گیلانی نے امید ظاہر کی کہ "ہمیں اچھے امیدوار مل جائیں گے۔"

XS
SM
MD
LG