|
خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر بنوں میں کینٹ کی دیوار کیساتھ بارودی مواد کے زوردار تین دھماکے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 12 افراد ہلاک اور30 سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔ ہلاک ا و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ھے ۔ زخمیوں میں متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ھے ۔
سیکیورٹی فورسز کے عہدیداروں کا کہنا ھے کہ کینٹ پر دو خودکش بمباروں کے ذریعے عسکریت پسندوں کے حملوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور چھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ۔
سرکاری طور پر سیکیورٹی فورسز عہدیداروں نے خودکش دھماکوں کی تصدیق کی ھے مگر ان دھماکوں میں عام لوگوں کی جانی و مالی نقصانات کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔
تاہم ڈویژنل ہیڈکوارٹر اور خلیفہ گل نواز ہسپتالوں کے عہدیداروں نے اب تک ان دھماکوں کے نتیجے میں بارہ افراد کی ہلاکت اور 30 سے زیادہ زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔کینٹ کے ارد گرد عمارتیں منہدم ہونے کے نتیجے میں خواتین اور بچے سمیت 12 افراد اور ہلاک 30 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں ۔
ایم ٹی آئی کے ترجمان محمد نعمان کے مطابق ضلع کے دو سرکاری ہسپتالوں میں 12 لاشیں لائی گئی ہیں جن میں مرد خواتین اور بچے شامل ہیں اور مزید کا خدشہ ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ جائے وقوعہ کے قریب جنازہ گاہ جس میں افطاری کیلئے کافی تعداد میں روزے دار افطاری کیلئے آئے تھے وہاں پر زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ آخری اطلاعات تک امدادی سرگرمیاں جاری رہیں ۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز کا ارادہ ہے کہ جب تک تمام خارجیوں کا صفایا نہیں کر دیا جاتا کلیرنس آپریشن جاری رہے گا۔
بنوں پریس کلب کے سابق صدر محمد وسیم حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دھماکوں کی آوازیں دور دور تک سنی گئی ہیں اور اس کے بعد فائرنگ شروع ہوئی ، اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ دھماکوں کی نوعیت کیا ہے ۔
اطلاعات کے مطابق کالعدم تنظیم جیش فرسان محمد نامی شدت پسند تنظیم نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تاہم اس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آدھا گھنٹہ دو طرفہ فائرنگ ہوئی جس کے بعد علاقے میں اعلانات شروع ہوئے کہ کوٹ براڑہ ، کوٹ دائم اور کوٹ عادل کے علاقے میں بڑی تباہی ہوئی ہے۔ اعلانات ہوتے ہی علاقے میں کہرام مچ گیا ہسپتال میں قیامت خیز مناظر دیکھنے کو ملے ، دھماکہ اس وقت ہوا جب لوگ افطاری کے لیے بیٹھے تھے اہل علاقہ کے مطابق دھماکے ایسا تھا جیسے اپنے ہی گھر میں ہوئے ہوں۔
ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ دھماکہ چھاؤنی میں بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے کیا گیا ہے تاہم ایسی اطلاعات ہیں کہ شدت پسند حملہ آوروں میں سے کچھ نے چھاؤنی میں داخلے کی کوشش کے دوران سکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ شدت پسندوں کی تعداد 12 سے 14 تھی ، جائے وقوعہ پر ہونے والے نقصانات کی تفصیلات سامنے نہ آسکیں البتہ قریبی علاقے میں تباہی مچی ہے آخری اطلاعات تک نعشیں اور زخمیوں کو ملبے سے نکالنے کا کام جاری تھا۔
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے جاری کردہ بیان میں کہا ھے کہ دھماکوں کے باعث کینٹ سے ملحقہ عمارتوں کی چھتیں گر گئی ہیں انکے بقول سیکیورٹی فورسز کی بروقت کاروائی سے دہشتگرد حملے میں ناکام رہے اور تمام حملہ آوروں کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ دھماکوں کے نتیجے میں قریبی مسجد کی چھت گرنے سے نمازیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تعین کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل مقامی صحافی محمد وسیم خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کو ملنے والی معلومات کے مطابق پہلے ایک خودکش حملہ آور نے نے فوجی چھاؤنی کی عقبی دیوار کے قریب دھماکہ کیا۔اس خودکش حملے کے فوری بعد ایک گاڑی میں سوار حملہ آور نے بارود سے بھری کار کو دیوار سے ٹکرایا ۔اس گاڑی میں موجود بارودی مواد سے ہونے والے دھماکے کے سبب کینٹ کی دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا ۔
واضح رہے کہ بنوں کینٹ پر گزشتہ برس جولائی میں بھی حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے کے حوالے سے فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آرنے بتایا تھا کہ بنوں کینٹ پر 10 دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جو جوابی کارروائی میں مارے گئے۔
بیان کے مطابق دہشت گردوں نے باردو سے بھری گاڑی کینٹ کی دیوار سے ٹکرائی تھی جس کے باعث 8 فوجی اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔ فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ پاکستانی طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ نے کیا تھا۔