رسائی کے لنکس

دارالعلوم حقانیہ میں خودکش حملہ: کیا یہ افغان طالبان کی حامی شخصیات پر حملوں کا تسلسل ہے؟


  • مولانا حامد الحق دارالعلوم حقانیہ کے سابق مہتمم مولانا سمیع الحق کے بڑے بیٹے تھے۔ مولانا سمیع الحق کو بھی 2018 میں راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا۔
  • پولیس حکام اور عسکریت پسندی پر نظر رکھنے والے ماہرین کو شبہ ہے کہ یہ حملہ دولتِ اسلامیہ یا داعش کی افغانستان اورپاکستان کے لیے قائم شاخ داعش خراساں کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
  • بعض ماہرین کے مطابق داعش افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنا رہی ہے اور اب پاکستان میں بھی اُن کے حامی ہدف بن رہے ہیں۔

کراچی -- افغانستان میں طالبان قیادت کے ساتھ دیرینہ تعلقات رکھنے والے پاکستان کے اہم ترین مدرسے دارالعلوم حقانیہ پر ہونے والے خودکش حملے نے خطے میں شدت پسندی کے بدلتے رجحانات پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

جمعے کو پاکستان کےصوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں جی ٹی روڈ پر واقع اس مدرسے میں نماز جمعہ کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکے سے اُڑا دیا جس کے سبب مدرسے کے نائب مہتمم اور جمعیت علمائے اسلام(سمیع الحق گروپ) کے سربراہ مولانا حامدالحق سمیت چھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔

عینی شاہدین اور پولیس کا کہناہے کہ دھماکے کےوقت مولانا حامدالحق نماز جمعہ پڑھا کر مدرسے ہی کی حدود میں واقع اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔

خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ ذوالفقار حمید کا کہناہے کہ دھماکہ خود کش تھا اور حملے میں مولانا حامد الحق کو نشانہ بنایا گیا۔

مولانا حامد الحق دارالعلوم حقانیہ کے سابق مہتمم مولانا سمیع الحق کے بڑے بیٹے تھے۔ مولانا سمیع الحق کو بھی 2018 میں راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا۔

مولانا سمیع الحق کی ہلاکت کے بعد حامد الحق کو جماعت کا سربراہ اور مدرسے کا نائب مہتمم بنایا گیا تھا جب کہ مدرسے کے مہتمم کی ذمے داری مولانا سمیع الحق کے چھوٹے بھائی مولانا انوار الحق کو دی گئی جو دیو بندی مسلک کے مدارس کی نمائندہ تنظیم 'وفاق المدارس العربیہ پاکستان' کے سینئر نائب صدربھی ہیں۔

تاحال کسی بھی گروہ نے مدرسے پر حملے کی باقاعدہ ذمے داری قبول نہیں کی تاہم سیکیورٹی حکام اور شدت پسندی پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق یہ حملہ افغان طالبان سے ہمدردی رکھنے والی پاکستانی شخصیات کو نشانہ بنانے کی کڑی ہو سکتی ہے۔

پولیس حکام اور عسکریت پسندی پر نظر رکھنے والے ماہرین کو شبہ ہے کہ یہ حملہ دولتِ اسلامیہ یا داعش کی افغانستان اورپاکستان کے لیے قائم شاخ داعش خراساں کی کارروائی ہو سکتی ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق یہ گروپ 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنا رہا ہے اور اب پاکستان میں بھی اُن کے حامی ہدف بن رہے ہیں۔

داعش کی دھمکیاں

اسلام آباد میں قائم شدت پسندی کے موضوعات پر تحقیق کرنے والے ادارے "دی خراسان ڈائری" کے تجزیہ کار افتخار فردوس کہتے ہیں کہ داعش خراساں نے ماضی میں نہ صرف دارالعلوم حقانیہ کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی تھیں بلکہ اس کے خلاف ایک کتاب بھی شائع کی تھی جس میں طالبان قیادت سے اس کی وابستگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

'ایکس' پر ایک پوسٹ میں افتحار فردوس کا کہنا تھا کہ "پاکستانی حکام نے مدرسے کے سربراہ مولانا حامد الحق کو ممکنہ حملے کے خدشات سے بھی آگاہ کیا تھا۔"

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے 'اے ایف پی' کو دیے گئے بیان میں دارالعلوم حقانیہ پر خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے داعش خراساں پر الزام عائد کیا ہے۔

خیال رہے کہ داعش خراساں کی جانب سے گزشتہ چند برسوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے کی ذمے داری قبول کی جاتی رہی ہے۔

جولائی 2023 میں باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے میں خود کش حملہ ہوا تھا جس میں 60 افراد مارے گئے تھے۔

پندرہ فروری کو ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کی جانب سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھی ایک خط لکھا گیا تھا جس میں اُنہیں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ کچھ عسکریت پسند تنظیمیں اُنہیں نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔

پشتو زبان میں تدریس

سن 1947 میں پاکستان بننے کے ایک ماہ بعد مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبد الحق نے ضلع نوشہرہ کے قصبے اکوڑہ خٹک میں ایک چھوٹے سے مدرسے کی بنیاد رکھی جو چند دہائیوں بعد دارالعلوم حقانیہ جیسے ملک کے بڑے مدرسے میں تبدیل ہو گیا۔

مدرسے کے نائب مہتم اور مولانا سمیع الحق کے چھوٹے بیٹے مولانا راشد الحق نے وائس آف امریکہ کو کچھ عرصہ قبل دیے گئے انٹرویو میں بتایا تھا کہ اُن کے دادا مولانا عبدالحق اترپردیش میں قائم دارالعلوم دیوبند میں مدرس تھے۔

اُن کے بقول 1947 میں پاکستان بننے کے بعد اُنہوں نے اپنے والد کے کہنے پر اکوڑہ خٹک میں اس مدرسے کی بنیاد رکھی تھی۔

مولانا راشد الحق کے مطابق مدرسے میں تدریس کی زبان پشتو میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کے صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے طلبہ میں بھی یہ مدرسہ کافی مقبول ہوا۔ اس وجہ سے خطے سے ایک بڑی تعداد میں لوگ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس مدرسے کا رُخ کرنے لگے۔

درالعلوم مدرسہ اور 'افغان جہاد'

دارالعلوم حقانیہ کو عمومی طور پر افغانستان کے حکمراں طالبان قیادت کی 'نرسری' سمجھا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ اس مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ میں۔ طالبان حکومت کی درجنوں اہم شخصیات شامل ہیں جن میں وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ امیر خان متقی قابلِ ذکر ہیں۔

اس کے علاوہ بھی متعدد وزرا، صوبوں اور اضلاع کے گورنر اور طالبان کےعسکری کمانڈر بھی اس مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ میں شامل ہیں۔

اس مدرسے سے فارغ التحصیل طلبہ اپنی درس گاہ سے عقیدت کی بنا پراپنے نام کے ساتھ 'حقانی' کا لاحقہ بھی لگاتے ہیں جن میں طالبان قیادت کے اہم رہنما شامل ہیں۔

افغان طالبان کے اہم ستون حقانی نیٹ ورک کا نام بھی اسی مدرسے سے تعلیمی نسبت کی بنیاد پر رکھا گیا۔

حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی (سراج الدین حقانی کے والد) دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی برس تک تدریس سے وابستہ رہے اور بعد میں ان کے کئی شاگرد اہم جنگجو کمانڈر بنے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد ان مدارس کے طلبہ کو 'افغان جہاد' کے لیے بطور رضا کار بھرتی کیا گیا اور ان کی مالی امداد کی گئی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ درارلعلوم حقانیہ ان اداروں میں نمایاں تھا جو اس مہم میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ کی مالی مدد اور پاکستانی فوج کی حمایت کے ساتھ جلال الدین حقانی، مولوی یونس خالص اور مولانا محمد نبی محمدی نے سوویت افواج کے خلاف مجاہدین کی بغاوت کا آغاز کیا۔ یہ تینوں مدرسہ حقانیہ کے طالبِ علم تھے۔

بعدازاں 1996 میں طالبان افغانستان پر پہلی مرتبہ قابض ہوئے تو طالبان حکومت میں مدرسہ حقانیہ کے فارغ التحصیل افغان طلبہ نے مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔

سن 2001 میں نائن الیون کے بعد جب امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج نے القاعدہ کے شدت پسندوں کو پناہ دینے کے الزام میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تو دارالعلوم حقانیہ اور اس جیسے دیگر مدارس پر عالمی توجہ ایک بار پھر مرکوز ہو گئی۔

مولانا سمیع الحق افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے خلاف پاکستان کی سطح پر بننے والے 'دفاع افغانستان کونسل' نامی مذہبی جماعتوں کے ایک اتحاد کے سربراہ بھی رہے جو بعد میں 'دفاع پاکستان کونسل' بنی۔

درالعلوم حقانیہ کا کردار: حقیقت یا مبالغہ؟

افغانستان میں مختلف ادوار میں شورش میں درالعلوم حقانیہ پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ طالبان اور دیگر مجاہدین گروہوں کی نظریاتی اور افرادی قوت کا ذریعہ رہے ہیں۔

البتہ افغانستان میں جہادی گروپوں کا مطالعہ کرنے والے بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مضبوط روابط کے حوالے سے مدرسہ حقانیہ کے کردار کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔

کراچی میں مقیم ایک مدرسے کے اُستاد مولانا یوسف علی نوے کی دہائی میں افغان طالبان کے ہمراہ مسلح جہدوجہد میں شامل رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دارالعلوم حقانیہ کی نسبت کراچی کے کچھ مدارس، خصوصاً جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ الرشید کے اُساتذہ طالبان قیادت سے زیادہ گہرے روابط رکھتے تھے۔

اُن کے بقول 2005 میں پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں چند پاکستانی مدارس کے اُساتذہ اور طلبہ کے ملوث ہونے کے بعد ان مدارس نے جہادی گروپس سے دُوری اختیار کرنا شروع کی۔

عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں 'بابائے طالبان' کے لقب سے مشہور مولانا سمیع الحق نے بھی افغان طالبان پر لکھی ایک کتاب میں واضح کیا تھا کہ ان کے مدرسے کے طالبان کے ساتھ کوئی خفیہ یا خصوصی تعلقات نہیں تھے۔

مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ "ہمارا تعلق صرف ایک روحانی اور استاد و شاگرد کے رشتے پر مبنی ہے جو ایک فطری امر ہے۔ یہ تعلق ویسا ہی ہے جیسے ہارورڈ یا اوکسفرڈ یونیورسٹی کے طلبہ کا اپنے اساتذہ سے ہوتا ہے۔"

کیا حملے بڑھ سکتے ہیں؟

مولانا حامد الحق ان چند پاکستانی مذہبی شخصیات میں شامل تھے جو پاکستان اور عالمی برادری سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے ۔

گزشتہ برس انہوں نے پاکستانی مذہبی رہنماؤں کے ایک وفد کے ہمراہ افغانستان کا دورہ کیا تھا، جہاں ان کی ملاقات طالبان حکومت کے اہم رہنماؤں سے ہوئی جن میں نائب وزیرِ اعظم مولوی عبد الکبیر اور وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی قابلِ ذکر ہیں۔

اس ملاقات کا مقصد کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے معاملے پر افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنا تھا۔

دارالعلوم حقانیہ پر حملے نے پاکستان میں طالبان کے اتحادی یا قریب سمجھے جانے والے افراد اور اداروں کے لیے سیکیورٹی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔

پشاور میں مقیم ایک سیکیورٹی اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر داعش خراساں واقعی طالبان کے حامی رہنماؤں کے خلاف ایک منظم مہم چلا رہی ہے تو یہ پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے انتہائی تشویش ناک بات ہے۔

ان کے بقول "ان حملوں کے اثرات پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف محسوس کیے جائیں گے۔"

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG