رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ کا بیان؛ کیا بگرام کا فوجی اڈہ اب بھی امریکہ کے لیے اہم ہے؟


 امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ بگرام ایئر بیس پر چھوڑا گیا اربوں ڈالرز کا فوجی سازو سامان واپس لے گا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ بگرام ایئر بیس پر چھوڑا گیا اربوں ڈالرز کا فوجی سازو سامان واپس لے گا۔
  • صدر ٹرمپ کے مطابق وہ بگرام ایئربیس کا کنٹرول افغانستان کے لیے نہیں بلکہ چین پر نظر رکھنے کے لیے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
  • امریکہ نے بگرام ایئر بیس پر اربوں ڈالرز کا اسلحہ چھوڑ دیا، وہاں کئی نئے ٹرک اور دیگر فوجی سازو سامان تھا جو واپس لیا جائے گا: صدر ٹرمپ
  • طالبان حکومت کی جانب سے صدر ٹرمپ کے بگرام ایئر بیس سے متعلق بیان پر تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
  • صدر ٹرمپ خود بھی پانچ مرتبہ بگرام ایئر بیس کا دورہ کر چکے ہیں۔ لہذٰا وہ اس کی اہمیت سے آگا ہیں: تجزیہ کار سمیع یوسفزئی

اسلام آباد -- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اگر جوبائیڈن کی جگہ ہوتے تو افغانستان میں بگرام ایئربیس کا کنٹرول کبھی نہ چھوڑتے اور وہاں کم از کم پانچ ہزار امریکی اہلکاروں پر مشتمل دستہ تعینات رکھتے۔

بدھ کو پہلے کابینہ اجلاس کے دوران ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے بگرام ایئربیس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کا شمار دنیا کی بڑی ایئر بیسز میں ہوتا ہے۔ جہاں مضبوط کنکریٹ رن وے پر کسی بھی قسم کے طیارے اتر سکتے ہیں۔ تاہم ان کے بقول امریکہ نے اس کا کنٹرول کھو دیا اور یہ ایئر بیس اب چین کے زیرِ اثر آ چکا ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں چین بگرام ایئربیس پر موجودگی کے امریکی الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کے مطابق وہ بگرام ایئربیس کا کنٹرول افغانستان کے لیے نہیں بلکہ چین پر نظر رکھنے کے لیے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ نے بگرام ایئر بیس پر اربوں ڈالرز کا اسلحہ چھوڑ دیا، وہاں کئی نئے ٹرک اور دیگر فوجی سازو سامان تھا جو واپس لیا جائے گا۔

افغانستان کے صوبہ پروان میں واقع یہ ایئربیس دارالحکومت کابل سے محض ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت کے کنٹرول کے دوران امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل گئی تھیں اور بگرام ایئر بیس کا کنٹرول طالبان حکومت نے سنبھال لیا تھا۔

طالبان حکومت کی جانب سے صدر ٹرمپ کے بگرام ایئر بیس سے متعلق حالیہ بیان پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم ماضی میں طالبان قیادت افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوجی اڈے کو ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتی رہی ہے۔

طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدے دار متعدد مواقع پر واضح کر چکے ہیں کہ بگرام سمیت کسی بھی فوجی اہمیت کی حامل تنصیب پر غیر ملکی کنٹرول یا مداخلت قابلِ قبول نہیں۔

مبصرین کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان سے امریکی اسلحے کی واپسی کا مطالبہ یا بگرام ایئربیس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش درحقیقت ایک نئی سفارتی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔

'صدر ٹرمپ ، افغانستان میں بھی یوکرین جیسی حکمتِ عملی اختیار کر رہے ہیں'

سنگا پور میں مقیم شدت پسندی کے امور پر تحقیق کرنے والے تھنک ٹینک کے محقق عبدالباسط کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان میں بھی یوکرین جیسی حکمتِ عملی اپنانا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق جہاں جنگ کے دوران امریکہ نے یوکرین کو 350 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی، وہیں ٹرمپ نے یوکرین سے 500 ارب ڈالر کی نایاب معدنیات کی ڈیل کا عندیہ دیا ہے۔

اُن کے بقول اس حوالے سے جمعے کو یوکرینی صدر زیلنسکی واشنگٹن کا دورہ بھی کر رہے ہیں جہاں توقع کی جارہی ہے کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دستخط کر دیں گے۔

عبدالباسط کے بقول امریکہ کی نظریں افغانستان کے معدنی وسائل پر ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تین ٹریلین ڈالر مالیت کے نایاب معدنی وسائل ہیں۔

بگرام ایئر بیس کو افغان جنگ کے دوران امریکہ کا اہم فوجی اڈہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
بگرام ایئر بیس کو افغان جنگ کے دوران امریکہ کا اہم فوجی اڈہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

عبدالباسط کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں چین نے افغانستان میں سرمایہ کاری کے اعلانات کیے ہیں۔ لہٰذا صدر ٹرمپ بھی یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کا میدان، چین کے لیے خالی نہ چھوڑا جائے۔

عالمی طاقتوں کے لیے اسٹریٹجک اثاثہ

بگرام ایئربیس کی تعمیر کا آغاز 1960 کی دہائی کے آخر میں روسی تعاون سے ہوا تھا۔ 1970 کی دہائی میں سوویت یونین نے یہاں اپنے جنگی طیارے، بشمول مگ 21 اور مگ 17 تعینات کر دیے تھے۔ 1979 میں افغانستان پر حملے کے بعد اس ایئربیس کا مکمل کنٹرول سوویت فورسز نے سنبھال لیا تھا۔

سن 2001 میں امریکی حملے کے بعد یہ ایئر بیس اگست 2021 تک امریکی کنٹرول میں رہی جس کے بعد طالبان نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یہ ایئربیس ہمیشہ سے ایک عسکری تنصیب کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے اور اسے کبھی بھی سویلین مقاصد کے لیے نہیں کھولا گیا۔

اس وقت بگرام ایئربیس کے تمام داخلی دروازے بند ہیں اور اس کے گرد بلند کنکریٹ کی دیواریں موجود ہیں جن پر خاردار تاریں، خفیہ کیمرے، مورچے اور سرچ ٹاور نصب ہیں۔ میڈیا کی رسائی بھی مکمل طور پر محدود کر دی گئی ہے۔ تاہم 15 اگست کو طالبان نے یہاں ایک تقریب منعقد کی جس میں وہ امریکی فوجی ساز و سامان نمائش کے لیے رکھا گیا جو انخلا کے بعد پیچھے رہ گیا تھا۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کے مطابق بگرام ایئربیس ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے لیے ایک اسٹریٹجک اثاثہ رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1980 کی دہائی میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملے کے بعد اس ایئربیس کا کنٹرول برقرار رکھا اور بعد میں امریکہ نے بھی اس میں بھاری سرمایہ کاری کی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سمیع یوسفزئی نے بتایا کہ وہ خود بھی مختلف اوقات میں پانچ مرتبہ بگرام ایئربیس کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق وہاں ایک جدید رن وے، فوجی تنصیبات، انسٹالیشنز، کیمپ اور آلات موجود تھے جب کہ ہیلی کاپٹر اور جنگی طیارے مسلسل پرواز میں رہتے تھے۔

سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ چوں کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران خود بھی بگرام ایئربیس کا دورہ کیا تھا۔ اس لیے وہ اس کی اسٹریٹجک اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔

ان کے مطابق کابل کے قریب ایک میدانی علاقے میں واقع اور پہاڑوں سے گھرا یہ ایئربیس امریکہ کے لیے چین، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک پر نظر رکھنے کا ایک کلیدی مقام ثابت ہو سکتا ہے۔

افغان امور کے ماہرین کے مطابق طالبان قیادت کے نظریات اور ان کی اب تک کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ انتہائی مشکل ہوگا کہ وہ امریکہ کو بگرام ایئربیس یا افغانستان میں کوئی اور مقام اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے دیں۔

سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ طالبان نے برسوں تک اپنی افرادی قوت کی ذہن سازی امریکی مخالفت پر کی ہے۔ ایسے میں اگر وہ خود ہی امریکیوں کو کسی طرح کی سہولت دینے پر راضی ہوتے ہیں تو انہیں شدید اندرونی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کے مطابق طالبان قیادت کے لیے یہ فیصلہ نظریاتی اور سیاسی طور پر پیچیدہ ہوگا کیوں کہ اس سے ان کی ساکھ اور داخلی اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG