امریکہ کی حکومت افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑے گئے ہتھیارں کی واپسی پر مسلسل زور دے رہی ہے۔ البتہ کابل میں برسرِ اقتدار طالبان ان ہتھیاروں کو "مالِ غنیمت" قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہتھیار امریکہ نے گزشتہ حکومت کو دیے تھے۔
بدھ کو پہلے کابینہ اجلاس کے دوران ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے بگرام ایئربیس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کا شمار دنیا کی بڑی ایئر بیسز میں ہوتا ہے۔ جہاں مضبوط کنکریٹ رن وے پر کسی بھی قسم کے طیارے اتر سکتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں دیامیر بھاشا ڈیم کے متاثرین کا شاہراہِ قراقرم سے ملحقہ گراؤنڈ میں گزشتہ گیارہ دن سے دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین حکومت سے ڈیم کی اراضی کا معاوضہ اور دیگر وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
میمونہ خانم کا کہنا ہے کہ شروع میں پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کو ایک سال یا چھ ماہ کا ویزہ فراہم کرتی تھی۔ لیکن اب ویزے کی تجدید صرف ایک ماہ کے لیے کی جاتی ہے جس کی میعاد پلک جھپکتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔
گلگت بلتستان میں شاہراہِ قراقرم پر دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کی جانب سے 'حقوق دو، ڈیم بناؤ' تحریک کے تحت دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین نے 31 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو وہ اگلے مرحلے میں ڈیم سائٹ کی طرف مارچ کریں گے۔ نذرالاسلام کی رپورٹ۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو شکایت ہے کہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ان دو شہروں سے کہیں اور منتقل ہوں ورنہ انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تفصیلات دیکھیے نذرالاسلام کی اس رپورٹ میں۔
جمعے کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور اس جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کرے گا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کرک شہباز الہٰی کہتے ہیں کہ کرک وہ واحد ضلع ہے جو گزشتہ 20 برس سے دہشت گردی کے ناسور سے محفوظ تھا۔ تاہم حالیہ واقعات کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی ہے۔
طالبان کے اقتدار میں آںے کے بعد سرینا شاید واحد ہوٹل تھا جہاں خواتین بدستور استقبالیہ اور دیگر شعبوں میں کام کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں دیگر افراد کا روزگار بھی اسی ہوٹل سے وابستہ تھا, جو اب غیر یقینی کا شکار ہو چکا ہے۔
ماہرین موجودہ حالات میں افغان طالبان پر سخت امریکی پالیسی کو سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے امید کی ایک نئی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم ایران امور کے ماہر صحافی افضل رضا کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ کے دورۂ کابل کا ایک اہم مقصد طالبان حکومت کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ ایران اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اُٹھائے گا۔
تجزیہ کار داؤد خٹک کے مطابق موجودہ حالات میں ضلع کرم میں وزیرستان طرز کے آپریشن کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ صوبائی حکومت اہلِ تشیع اور اہلِ سنت، دونوں طبقات کی ناراضگی مول لینے سے اجتناب کر رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی اور اس کی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے باعث شدت پسندوں کو پنپنے کا موقع ملا ہے۔
ڈپٹی کمشنر آفس کے ایک بیان کے مطابق رواں سال اسلام آباد سے مجموعی طور پر 183 غیر قانونی غیر ملکیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم کے ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے کے بعد صوبائی حکومت نے امن معاہدے پر دستخط کرنے والے عمائدین سے باز پرس اور ملوث ملزمان کے ساتھ ساتھ ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
بعض قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد کٹھن ہو گا۔ جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ امن کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ طالبان حکومت نے معیشت، انسانی حقوق اور دیگر مسائل میں گھرے افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیے کو مضبوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
امیر خان متقی نے کہا کہ ان کی حکومت کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ یہ کوئی بہادری کا عمل نہیں ہے جس میں بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو نشانہ بنایا جائے۔
شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ ایک طرف پاکستانی عہدے دار کابل میں ہیں اور دوسری طرف یہ کارروائی کی گئی ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ مزید بڑھے گا۔
تجزیہ کار داؤد خٹک کہتے ہیں کہ صرف سیکیورٹی اداروں پر انحصار کرنے کے بجائے قبائلی اضلاع میں معاشی اور سماجی ترقی پر بھی توجہ دینا ہو گی تاکہ مقامی آبادی کا اعتماد حاصل ہو سکے۔
مزید لوڈ کریں