بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی آئی ہے اسی لیے وہ بھی اب بڑے حملے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ہر فوجی آپریشن کے بعد شدت پسند مزید طاقت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔
گزشتہ 40 سال سے پشاور کے بورڈ بازار میں رہائش پذیر اختیار ولی نے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم از کم اب وہ ایک سال مزید بغیر کسی خوف و ہراس کے پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹرز کے سیکریٹری محمد عمر اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں کمرشل سطح پر ہیلی کاپٹر سروس دستیاب نہیں ہے۔ اسی لیے صرف عسکری ایوی ایشن پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن 'عزمِ استحکام' کا اعلان کیا تھا۔ اس آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟ جانیے ماہرین کی رائے نذرالاسلام کی اس رپورٹ میں۔
آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان کو افغانستان سے متصل مغربی سرحد پر آئے روز مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
طالبان حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے تاہم ماضی میں وہ اس قسم کی رپورٹس کو افغانستان کے خلاف پروپیگنڈا قرار دے چکے ہیں۔
افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ طالبان حکومت کا اصرار ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ کچھ تکنیکی معاملات پر قابو پانے پر کام کر رہے ہیں۔
افغانستان میں 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت پڑوسی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ طالبان بتدریج ایران، چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے تگ و دو میں ہیں۔
گلگت بلتستان کی سیاسی، سماجی، قوم پرست اور مذہبی تنظیموں پر مشتمل 'عوامی ایکشن کمیٹی' نے حکومت کی جانب سے 44 سیاحتی مقامات، گیسٹ ہائوسز اور جنگلات کی زمینوں کو نجی کمپنی 'گرین ٹورزم لمیٹڈ' کو 30 سال کے طویل عرصے کے لیے لیز پر دینے کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت اور طالبان عموماً معلومات کو خفیہ رکھتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سراج الدین حقانی کے دورۂ امارات سے قبل خلیجی ملک نے امریکہ کو اعتماد میں لیا ہو گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے افغانستان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے اشارے بھی مل رہے ہیں اور ایسا ہوتا ہے تو یہ اقدام دور رس نتائج مرتب کرے گا۔
افغان امور کے ماہر کے مطابق پاکستان سے جانے والے وفد کی خواہش تھی کہ ٹی ٹی پی کے بارے میں طالبان سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ کے ساتھ براہ راست رابطے استوار کیے جائیں کیوں کہ کابل کی جانب سے انھیں اس معاملے پر اپنے تحفظات سے متعلق کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا۔
طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے ایک افغان شہری کا اعترافی بیان پاکستانی میڈیا میں نشر ہوا تھا جس نے پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
دنیا بھر میں ہر سال 25 اپریل کو 'ملیریا ڈے' منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد ملیریا سے متاثر ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیاں ملیریا جیسی بیماریوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں؟ تفصیلات اس رپورٹ میں۔
منگل کو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہ نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
اگرچہ واقعے کے چند گھنٹے بعد شاہراہ قراقرم کو ہر طرح کی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے تاہم علاقے میں تاحال خوف و ہراس ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش خراسان کا کنٹرول افغان صوبے ننگرہار اور کنڑ تک ہی محدود تھا۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے میں شدت پسند تنظیم نے اپنا دائرہ اور اثر و رسوخ کئی علاقوں تک پھیلا دیا ہے۔
پاکستان نے پیر کو سرحد پار کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو سماجی رابطے کی سائٹ 'ایکس' پر ایک بیان میں کہا کہ اتوار کی شب تین بجے کے قریب پاکستانی طیاروں نے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل اور صوبہ خوست کے ضلع سیپرہ میں شہریوں کے گھروں پر بمباری کی ہے۔
اگست 2021 میں طالبان حکومت کی جانب سے کابل کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد جب افغانستان جانے کا اتفاق ہوا تو ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 90 افغانی تبادلے کی صورت میں ملتے تھے۔
مزید لوڈ کریں