|
اسلام آباد _ "کوسٹر کا ڈرائیور راولپنڈی سے ایک روز قبل ہی استور آیا تھا اور پھر اگلے روز باراتیوں کو لے کر سفر پر نکلا تھا۔ وہ بہت تیز گاڑی چلا رہا تھا کہ اچانک تھلیچی پل کے قریب پہلے گاڑی دیوار سے ٹکرائی جس کے بعد پل کی حدود میں داخل ہوکر جنگلا توڑتے ہوئے دریا میں جاگری۔"
یہ بتانا ہے کہ ملکہ کا جو دلہن تھیں اور عروسی لباس زیب تن کیے اُس کوسٹر میں سوار تھیں جو استور سے چکوال جاتے ہوئے پیر کو دن ایک بجے تھلیچی کے مقام پر حادثے کا شکار ہوئی۔
حکام کے مطابق متاثرہ کوسٹر میں 27 افراد سوار تھے جن میں واحد دلہن معجزانہ طور پر محفوظ رہیں۔ واقعے کو چار روز گزرنے کے باوجود تاحال 16 افراد کی لاشیں دریا سے نکالی جا سکی ہیں جب کہ بقیہ کی تلاش جاری ہے۔
حادثے میں بچ جانے والی دلہن ملکہ جگلوٹ اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ ان کے بقول حادثے میں ان کے خاندان کے بیشتر افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس وقت انہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
حادثے میں دلہا سمیت ان کی والدہ، خالہ اور بھائی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ باقی ماندہ افراد کا تعلق دلہن کے قریبی رشتہ داروں سے ہے۔
استور کے علاقے پریشن سے تعلق رکھنے والے آصف حسین گزشتہ چار روز سے تھلیچی کے مقام پر اس امید سے آتے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے اور ان کے عزیز انہیں مل جائیں۔
دلہن کے قریبی عزیز آصف کے مطابق کوسٹر میں اُن کے 60 سالہ سسر غلام مصطفیٰ بھی سوار تھے جن کا اب تک کچھ نہیں پتا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے آصف نے بتایا کہ باراتیوں کی گاڑی میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوسٹر میں سوار نہیں ہوئے تھے اور رخصتی کے بعد اپنے کام کاج میں مصروف ہو گئے تھے۔
آصف کے بقول پیر کی دوپہر وہ اپنی مکینک کی دکان میں بیٹھے تھے کہ انہیں فون کال موصول ہوئی اور حادثے کے بارے میں پتا چلا۔
دریا سے باراتیوں کی لاشیں نکالنے کے عمل میں شریک 18 سالہ نوجوان نیک عالم کے مطابق وہ پل سے دریا میں کوسٹر کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہاں کسی گاڑی کا نام و نشان تک نظر نہیں آرہا تھا۔
نیک عالم کے مطابق "کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ حادثہ دیکھ کر اوسان خطا ہو گئے تھے جس کی وجہ سے بے اختیار دریا میں کودنا پڑا۔"
نیک عالم کے بقول ٹھنڈے پانی کے تیز بہاؤ میں کوسٹر کو ڈھونڈنا مشکل کام تھا لیکن جب بہتے پانی میں کسی سنگلاخ چیز سے ہاتھ ٹکرایا تو احساس ہوا کہ یہ کوسٹر ہی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کوسٹر کا پچھلا شیشہ ٹوٹ چکا تھا۔ لاشوں کو نکالتے ہوئے ان کا ایک ہاتھ زخمی بھی ہوا۔ تاہم وہ چار لاشوں کو نکال لانے میں کامیاب ہوئے۔
ریسکیو کے عمل میں مشکلات
حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد ریسکیو اور دیگر حکام بھی موقع پر پہنچے جنہیں ابتدا میں رسی کے ذریعے کوسٹر کو باہر نکالنے میں مشکل پیش آئی۔ بعدازاں ہیوی مشینری کے ذریعے کوسٹر کو دریا سے نکال لیا گیا۔
نیک عالم کا کہنا تھا کہ دریا کے ٹھنڈے پانی میں چھ گھنٹے کی تگ و دو کے بعد 12 افراد کی لاشیں نکال لی گئی تھیں اور سورج ڈھل چکا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ سینکڑوں کی تعداد میں مقامی افراد دریا کنارے لاچارگی کی حالت میں موجود تھے۔ فضا ہر جانب سوگوار تھی کیوں کہ باقی ماندہ دریا برد باراتیوں کا دور دور تک کوئی آثار نہیں مل رہے تھے۔
گلگت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی عبدالرحمان بخاری کا کہنا ہے کہ جب انہیں واقعے کی اطلاع ملی تو وہ فوراً اسپتال پہنچے۔ تاہم جب دلہن سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہیں شدید صدمے کی حالت میں پایا۔ ان کے بقول شروع میں دلہن کو اس واقعے کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا تھا۔
نیک عالم کے مطابق دلہن نے بتایا کہ وہ گاڑی کے اگلے حصے میں بیٹھی تھیں جب اوورٹیک کرتے ہوئے ڈرائیور سے گاڑی بے قابو ہوئی اور وہ گاڑی کے شیشے سے سیدھی باہر نکلتی ہوئی دریا میں جاگریں۔
گلگت بلتستان میں آئے روز حادثات کے بارے میں بتاتے ہوئے عبدالرحمان بخاری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے علاقے میں ٹرانسپورٹ کے چیک اپ کا کوئی موثر نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے مختلف نوعیت کی گاڑیاں حادثات کا باعث بنتی ہیں۔
گلگت بلتستان کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر معظم علی احمد کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ دشوار گزار علاقہ ہے جہاں بہت زیادہ تعداد میں موڑ ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں انسانی یا میکنیکل خطا کی صورت میں حادثات ہوتے ہیں۔
استور حادثے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متاثرہ کوسٹر کے تمام ٹائر درست حالت میں ہیں۔ گاڑی کا کوئی بھی ایکسل نہیں ٹوٹا۔ جس مقام سے گاڑی گری وہاں 250 میٹر لمبا پل تھا۔
انہوں نے بتایا کہ کوسٹر کے بریک فیل کا کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا۔ البتہ تمام حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد جو بات سامنے آئی ہے وہ ڈرائیور کی اوور اسپیڈنگ نوٹ کی گئی ہے۔
معظم علی احمد کے مطابق لانگ روٹ گاڑیوں کی فٹنس ایک تیسرے ادارے وہیکل انسپشن سرٹیفیکیٹ سسٹم (وکس) کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حادثات کے بعد بغور جائزہ لینے کے بعد یہ دیکھا گیا ہے کہ حالیہ چند سالوں کے دوران کوئی بھی حادثہ گاڑی کی فٹنس کی بابت پیش نہیں آیا۔
ان کے بقول انتظامیہ لانگ روٹ گاڑیوں میں ایک کے بجائے دو ڈرائیوروں کی موجودگی اور بس اڈے پر تقریباً 12 گھنٹے گاڑی کے قیام کو بھی لازمی بنائے جانے پر کام کر رہی ہے۔ تاکہ ڈرائیور اور گاڑی کو آرام کا مناسب وقت مل سکے۔
فورم