رسائی کے لنکس

ہرنائی: آپریشن کے دوران میجر سمیت دو سیکیورٹی اہلکار ہلاک، تین 'دہشت گرد' بھی مارے گئے


  • آئی ایس پی آر کے مطابق ہرنائی میں مانگی ڈیم کے قریب سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملے میں میجر سمیت دو اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔
  • بیان کے مطابق دہشت گرد ہرنائی میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا چاہتے تھے جس کی اطلاع پر سیکیورٹی فورسز نے کارروائی کی۔
  • منگل کو بھی تربت کے علاقے میں فورسز نے ایک انٹیلی جینس بیسڈ آپریشن کے دوران چار 'دہشت کردوں' کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
  • بلوچستان کے مختلف اضلاع میں انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

کوئٹہ -- بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں مانگی ڈیم کے قریب سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملے میں پاکستان فوج کے میجر سمیت دو اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے جمعرات کی دوپہر ہونے والے اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ہرنائی میں دہشت گردوں کی جانب سے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے خفیہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔

پاکستان فوج کے میجر محمد حسیب کی قیادت میں سیکیورٹی فورسز فوراً علاقے کو کلیئر کرنے کے لیے پہنچ گئیں۔ سیکیورٹی فورسز نے مؤثر کارروائی کے دوران دہشت گردوں کے ٹھکانے کا سراغ لگایا اور وہاں آپریشن کیا جس کے نتیجے میں تین دہشت گرد مارے گئے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر دیسی ساختہ بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں میجر محمد حسیب اور حوالدار نور احمد ہلاک ہو گئے۔

محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں رواں سال نو ماہ کے دوران دہشت گردی کے 200 واقعات میں کم و بیش 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان واقعات میں سے اکثر کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔

یہ واقعات بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ، گوادر، تربت، نوشکی، ہرنائی، مستونگ، چاغی، موسیٰ خیل، بولان، قلات، کھڈ کوچہ، لسبیلہ، دکی، پنجگور اور دیگر علاقوں میں رونما ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ایک خود کش بم دھماکے میں کم از کم 26 افراد ہلاک جب کہ 60 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت امن و امان کے منعقدہ ایک اجلاس میں صوبے کے شورش زدہ علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف خفیہ معلومات پر مشتمل آپریشن کرنے کا فیصلہ ہوا۔

منگل کو تربت کے علاقے میں فورسز نے ایک انٹیلی جینس بیسڈ آپریشن کے دوران چار دہشت کردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خفیہ اطلاع پر یہ آپریشن ضلع کیچ کے علاقے بالگتر میں کیا گیا۔

بیان کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ آپریشن کے بعد علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔

بلوچستان کے ضلع تربت شہر سے تقریباً 70 کلو میٹر دو دشت کے علاقے میں وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر بعض مقامی افراد نے بتایا کہ دشت اور ملحقہ علاقوں میں پاکستانی فورسز کی نقل و حرکت جاری ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں گزشتہ تین روز سے بازار بند ہے اور کرفیو جیسا ماحول ہے جس سے مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ مکران ڈویژن بلوچستان کا ایک ایسا شورش زدہ علاقہ ہے جہاں گزشتہ دو دہائیوں سے امن و امان کی صورتِ حال مسلسل خراب رہی ہے۔

اس علاقے میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم ہیں جو بلوچستان کی خودمختاری کے لیے اپنے مطالبات پیش کرتی ہیں اور اکثر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہیں۔

انٹرنیٹ سروسز کی بندش سے مشکلات

دوسری جانب بلوچستان کے بعض علاقوں میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر گزشتہ تین روز سے انٹرنیٹ کی سہولت معطل ہے۔

ان علاقوں میں تربت، گوادر، قلات، ژوب ، دکی اور زیارت کے بعض علاقے شامل ہیں جب کہ پنجگور کی عوام پہلے ہی گزشتہ ایک سال سے اس سہولت سے محروم ہیں۔

موبائل انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہونے سے طلبہ، تاجروں اور عام عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بلوچستان کے ضلع تربت سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی صحافی الطاف حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہر میں انٹرنیٹ کی سہولت بند ہے جس کی وجہ سے عام شہروں کی طرح ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

ان کے بقول "میرے گھر پر پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے اس لیے اپنے نیوز ادارے کو خبریں اور ویڈیوز ارسال کرنے کے لیے وہ موبائل ڈیٹا انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔

مگر گزشتہ کچھ دنوں سے موبائل انٹرنیٹ کی بندش سے انہیں اپنے صحافتی خدمات سرانجام دینے میں مشکلات ہو رہی ہیں۔

بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر سے تعلق رکھنے والے شعبہ قانون کے ایک طالب علم نے بھی ایسے ہی کچھ مشکلات کا ذکر کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چھ روز سے یہاں موبائل ڈیٹا پر انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اساتذہ کی جانب سے انہیں پاکستان کے آئین میں حالیہ 26 ویں ترمیم کے حوالے سے تحقیق کرنے کے یے اسائنمٹس ملی تھی مگر انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باعث انہیں اور دیگر طلبہ کو اس حوالے سے معلومات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

بلوچستان کے دیگرعلاقوں میں بھی کاروباری افراد کو موبائل فونز کے ذریعے آن لائن رقوم کی منتقلی میں مشکلات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

بلوچستان کے مذکورہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت کیوں منقطع کی گئی ہے اور یہ دوبارہ کب تک بحال ہوگی اس حوالے سے تاحال سرکاری سطح پر کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔

فورم

XS
SM
MD
LG