|
اسلام آباد -- "میں نے اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کے لیے ہر طرح کی تگ و دو کی ہے۔ اسپتال، تھانہ، ایدھی سینٹرز سمیت ہر اس جگہ کی خاک چھانی جہاں سے ان کے ملنے کی امید تھی لیکن ہر جگہ سے مایوس لوٹنا پڑا۔"
یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے رہائشی عبدالباسط کا جو اپنے 16 سالہ بھائی سیف اللہ کی تلاش میں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ اُن کی والدہ سخت پریشان ہیں۔ وہ ہمیشہ بیٹے کے بارے میں پوچھتی ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
عبدالباسط کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بھائی تحریکِ انصاف کے جلسوں میں پہلے بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ایک سال قبل انہیں جلسوں میں شریک ہونے کے حوالے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سیف اللہ کو 24 نومبر کے احتجاج میں جانے سے بھی منع کیا تھا، لیکن وہ بہانہ کر کے گھر سے چلا گیا جس کے بعد سے تاحال اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ وہ موبائل فون بھی استعمال نہیں کرتا۔
واضح رہے کہ 26 نومبر کی رات پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں کے خلاف کارروائی میں حکومتی دعوے کے مطابق ایک ہزار سے زائد کارکن گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس دوران حکومت کسی بھی کارکن کی ہلاکت سے انکاری ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ حکومتی آپریشن میں ان کے متعدد کارکن ہلاک ہوئے ہیں۔
مقامی رہنماؤں کو کارکنوں کی فہرستیں جمع کرانے کی ہدایت
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی ضلع پشاور کے صدر عرفان سلیم نے بتایا کہ اس حوالے سے مرکزی قیادت نے تمام اضلاع کے صدور کو کارکنوں کی فہرستیں شیئر کرنے کا کہا ہے جو 26 نومبر کے بعد سے مبینہ طور پر لاپتا ہیں۔
ان کے بقول اس طرح کی فہرستوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے اور اس کے بعد جلد نئے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس فی الحال 10 ہلاک شدہ کارکنان کا ریکارڈ موجود ہے جن کی غائبانہ نمازہ آج خیبر پختونخوا اسمبلی کے باہر ادا کر دی گئی ہے جب کہ پشاور شہر کی سطح پر 160 کارکن گرفتار یا مسنگ ہیں۔
'پولیس سے بچنے کے لیے رات قبرستان میں گزاری'
عامر فرضی نام کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک سے ہے۔
ان کے بقول 26 نومبر کی رات تقریباً 11 بجے شدید فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کے بعد وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ سینٹورس مال سے زیرو پوائنٹ تک بھاگے جس کے بعد وہ وقتاً فوقتاً کسی گاڑی سے لفٹ مانگنے کے لیے مڑ کر دیکھتے تھے۔
رات کے اندھیرے میں پیچھے سے آنے والی ایک ایسی ہی گاڑی کو ہاتھ کا اشارہ کیا لیکن قریب آنے پر جب دیکھا کہ پولیس کی گاڑی ہے تو فوراً دوبارہ سے بھاگنے کو ترجیح دی۔
عامر نے الزام لگایا کہ ایسے میں پولیس نے ان دونوں پر فائرنگ کی لیکن اندھیرے میں وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد اُنہوں نے سخت سردی میں باقی ماندہ رات آئی ایٹ قبرستان میں گزاری۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کا مؤقف ہے کہ 26 نومبر کی شب کسی پر فائرنگ نہیں کی گئی بلکہ شیلنگ اور لاٹھی چارج کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کیا گیا۔
اسپتالوں میں کیا صورتِ حال ہے؟
اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے جب اسلام آباد کے دو سرکاری اسپتال فیڈرل گورنمنٹ سروسز (پولی کلینک) اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو عملے نے ہلاکتوں اور زخمیوں کا ڈیٹا فراہم کرنے سے گریز کیا۔
جب پولی کلینک اسپتال میں ڈاکٹرز سے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی تو سب نے بات ٹالنے کو ہی ترجیح دی۔
اسپتال سے باہر ایک عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 26 نومبر کی رات 12 بجے تک تقریباً 30 زخمی افراد کو انہوں نے خود اسپتال میں دیکھا۔
'اگر پی ٹی آئی کے دعوے درست ہیں تو حکومت کے لیے مشکلات بڑھیں گی'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار اسماعیل خان کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کے بارے میں جو دعوے پی ٹی آئی کر رہی ہے اگر وہ صحیح ثابت ہوتے ہیں تو یقیناً آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر واقعی اتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں تو انہیں چھپانا آسان نہیں ہے۔ اگر اتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں تو یہ ثابت کرنا پی ٹی آئی کی ذمے داری ہے۔
اسماعیل خان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے ورکرز پارٹی قیادت سے نالاں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ قیادت عمران خان کے بیانے کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔
فورم