|
اسلام آباد -- پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ عرصے کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تازہ واقعے میں ہفتے کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے دھماکے میں 20 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے۔
کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے نے) نے دعویٰ کیا ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر ان کے خودکش بمبار نے فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے جب کہ دھماکے میں 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے 482 حملوں کی ذمے داری قبول کی گئی۔
اس حوالے سے پاکستانی حکام بارہا یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرتی ہے۔ دوسری جانب طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے مسئلے کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار داؤد خٹک کہتے ہیں کہ اس سے قبل جب افغانستان میں طالبان اقتدار میں نہیں تھے تب بھی ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان کے مشرقی صوبوں کنڑ، نورستان، ننگرہار، پکتیا، پکتیکا اور خوست میں موجود تھے۔ تاہم اس دوران پاکستانی حکام صدر حامد کرزئی اور اشرف غنی سے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کرتے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب امریکی افواج افغانستان میں موجود تھیں تو حقانی نیٹ ورک پر یہ الزام لگتے تھے کہ وہ افغانستان کے اندر کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ لہذٰا امریکہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی پر زور دیتا تھا جب کہ پاکستان امریکہ پر زور دیتا تھا کہ وہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے۔
اُن کے بقول اب امریکہ افغانستان سے جا چکا ہے اور افغان طالبان اب پاکستان کے ٹی ٹی پی سے متعلق مطالبات کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔
اسلام آباد اور کابل کے درمیان بداعتمادی
شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ اس وقت اسلام آباد اور کابل کے درمیان بداعتمادی بہت بڑھ چکی ہے۔
ان کے بقول اگرچہ حکومت شدت پسند گروہوں کے خلاف تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لا کر عسکری کارروائیاں کر سکتی ہے۔ لیکن جب تک کابل اور اسلام آباد کے درمیان بداعتمادی اور الزامات کا خاتمہ نہیں ہوتا، پاکستانی فورسز کے لیے شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کو مؤثر طریقے سے روکنا ممکن نہیں ہو گا۔
داؤد خٹک کے بقول ٹی ٹی پی افغانستان میں بہت مضبوط ہے اور وہاں اسے کافی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت کی تائید بھی حاصل ہے اس وجہ سے پاکستانی حکومت کے پُرزور اصرار کے باوجود بھی ان کے خلاف کارروئی نہیں کی جا رہی۔
داؤد خٹک کا مزید کہنا تھا کہ سابقہ قبائلی علاقہ جات میں فوج کی جانب سے 'آپریشن ضرب عضب' کے بعد وہاں کے لوگ بدحالی کا شکار ہیں۔ وہاں ترقیاتی منصوبے اور معاشی اصلاحات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ امن و امان کی صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے۔ وہاں کے سیاسی قائدین بھی ریاست سے خفا ہیں جس کا تمام تر فائدہ شدت پسند تنظیموں کو ہو رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ
ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ سابقہ قبائلی علاقہ جات میں فوج موجود ہے تاہم ٹی ٹی پی اب بھی وہاں اپنی جڑیں رکھتی ہے اور حالیہ عرصے میں ٹی ٹی پی مالی لحاظ سے بھی مضبوط ہوئی ہے اور اس کے پاس جدید اسلحہ بھی ہے۔
وفاق اور خیبر پختونخوا کے درمیان عدم اعتماد
داؤد خٹک کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی دہشت گردی کے سر اُٹھانے کی بڑی وجہ ہے۔ ایسے میں دہشت گرد یہاں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
داؤد خٹک کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ قبائلی اضلاع اب وفاقی حکومت کی ترجیح نہیں رہے اور یہی وجہ ہے کہ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کوئی مربوط حکمتِ عملی نہیں بنائی۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں پاکستان کو سارا ملبہ افغانستان پر ڈالنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سی قوتیں سی پیک، گوادر اور پاکستان، چین دوستی کے خلاف ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کو سی پیک کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ایجنسیوں کو بے نقاب کرنا چاہیے جو اس گھناؤنے کھیل کا حصہ ہیں۔
پارلیمان کی اہمیت
سابق ڈائریکٹر ایریا اسٹڈیز سینٹر پشاور ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے دشمن ممالک پر انگلیاں اُٹھانا حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے آج تک کسی بھی خود کش حملے کی جامع تحقیقات تک نہیں کی ہیں جس کے تحت اصل کرداروں کا سراغ لگایا جائے۔
ان کے بقول جس طرح نائن الیون کے بعد امریکہ نے القاعدہ کو جڑ سے ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور جس کے بعد آج تک امریکی سرزمین پر دوبارہ سے دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔ پاکستان نے اس جیسا جامع منصوبہ نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی ایک ناسور کی طرح اب بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر سرفراز کے بقول ملک میں دہشت گردی کی لعنت کو تب ہی ختم کیا جا سکتا ہے کہ عوامی اداروں کو بااختیار بنایا جائے جس کے بعد پارلیمنٹ اپنی پالیسی بناتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع پلان اپناتے ہوئے ان کا قلع قمع کیا جائے۔ ان کے بقول پارلیمان کی بالادستی کے بغیر پاکستان کبھی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا۔
خیال رہے کہ ریاستی اداروں اور فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف مواقع پر کیے جانے والے فوجی آپریشنز کی وجہ سے دہشت گردوں کو بھاری نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔
فورم