رسائی کے لنکس

امریکی حکومت افغانستان سے ہتھیاروں کی واپسی کی خواہاں، معاملہ کیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد — امریکہ کی حکومت افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑے گئے ہتھیاروں کی واپسی پر زور دے رہی ہے۔ البتہ کابل میں برسرِ اقتدار طالبان ان ہتھیاروں کو "مالِ غنیمت" قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ امریکہ نے سابقہ حکومت کو دیے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کی واپسی چاہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس (سی پی اے سی) سے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جب افغان طالبان اپنی سالانہ پریڈ میں امریکہ کے اسلحے اور گاڑیوں کی نمائش کرتے ہیں تو یہ منظر انہیں "غصہ" دلاتا ہے۔

مبصرین کے مطابق ٹرمپ جب کسی معاملے کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بناتے ہیں تو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس معاملے کو بار بار اٹھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلحے کی واپسی یا کوئی ممکنہ راستہ تلاش کرنے کے لیے طالبان سے بات چیت کی جا سکتی ہے۔

افغانستان کے ’آمو ٹی وی‘ کے سربراہ اور سینئر صحافی لطف اللہ نجفی زادہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد طالبان کے ہاتھوں میں آنے والا فوجی ساز و سامان اور پھر اس کی نمائش ایک اہم معاملہ رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلسل اس مسئلے کو اٹھانے سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ وہ اس پر طالبان سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

ان کے بقول یہ واضح نہیں کہ طالبان اس معاملے پر امریکہ سے بات چیت کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ کیوں کہ طالبان اس وقت داخلی تقسیم اور واضح حکمتِ عملی کے فقدان کے چیلنج سے نبرد آزما ہیں۔

ان ہتھیاروں سے متعلق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان کے سرکاری نشریاتی ادارے ’آر ٹی اے‘ کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ امریکہ نے سابق افغان حکومت کو دیے تھے اور طالبان نے انہیں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی صدر کے مشیروں سے متعلق کہا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی ساز و سامان کی موجودگی سے متعلق درست معلومات فراہم کریں۔ یہ معلومات زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انہوں نے انٹرویو میں بگرام ایئربیس پر چین کے اہلکاروں کی موجودگی کے دعوؤں کو بھی مستردکیا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ہتھیار سابق افغان حکومت کو دیےتھے اور طالبان اس حکومت کا خاتمہ کرکے افغانستان کی حکمرانی سنبھال چکے ہیں۔ اس لیے وہ تکنیکی طور پر ان ہتھیاروں کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ طالبان کے رہنما اپنے انٹرویوز اور بیانات میں ان ہتھیاروں کو مالِ غنیمت قرار دیتے رہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو اپنی طاقت کے اظہار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

کینیڈا میں موجود افغان صحافی لطف اللہ نجفی زادہ کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں جا چکے ہیں جس سے سیکیورٹی خدشات جنم لے رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کابینہ کے اجلاس کے دوران بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ افغانستان میں رہ جانے والے فوجی ساز و سامان کی واپسی چاہتے ہیں۔امریکی صدر نے بائیڈن انتظامیہ پر بھی تنقید کی کہ انہوں نے فوجی انخلا مناسب انداز سے نہیں کیا اور اربوں ڈالر مالیت کا ساز و سامان پیچھے چھوڑ دیا۔

ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان فوجی ساز و سامان فروخت کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ وہ امریکی ساز و سامان فروخت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول افغانستان میں رہ جانے والے سامان میں سے سات لاکھ 77 ہزار رائفلیں اور 70 ہزار گاڑیاں فروخت کی جا رہی ہیں جن میں بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ 70 ہزار گاڑیاں ہمارے پاس موجود تھیں اور ہم نے انہیں وہیں چھوڑ دیا۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ’’ہمیں یہ واپس لینی چاہئیں۔‘‘

امریکی محکمۂ دفاع کی 2022 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے اگست 2021 میں امریکی انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑے گئےسات ارب ڈالر سے زائد مالیت کے بیشتر فوجی ساز و سامان پر قبضہ کر لیا تھا۔

اگرچہ امریکی افواج نے انخلا کے دوران زیادہ تر فوجی ساز و سامان کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ تاہم کچھ ہتھیار، گاڑیاں اور دیگر ساز و سامان درست حالت میں بھی طالبان کے ہاتھ آ گیا تھا۔

اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ترکیہ منتقل ہونے والے سینئر افغان صحافی اور تجزیہ کار صفت اللہ صافی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت کا تاثر جس طرح دیا جا رہا ہے حقیقت اس سے مختلف ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلحے کی اسمگلنگ نہ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

صفت اللہ صافی کے مطابق اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں عدم استحکام کی صورتِ حال تھی۔ اسی دوران کچھ اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوا۔ لیکن جہاں تک بھاری ہتھیاروں کا تعلق ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ طالبان حکومت انہیں فروخت کرنے پر آمادہ ہوگی کیوں کہ انہیں خود سیکیورٹی کے سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔

برطانیہ میں مقیم افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان یہ اسلحہ امریکہ کو واپس کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ تاہم مستقبل میں یہی فوجی ساز و سامان خود طالبان حکومت کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سمیع یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے پاس اس جدید اسلحے اور فوجی آلات کو برقرار رکھنے کے لیے درکارٹیکنیکل مہارت اور وسائل موجود نہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ مستقبل میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ان فوجی آلات کی دیکھ بھال سے متعلق کوئی بات چیت ہو کیوں کہ اس کے بغیر یہ ساز و سامان ناکارہ ہو سکتا ہے۔

سینئر افغان صحافی اور تجزیہ کار صفت اللہ صافی کے مطابق طالبان نہ صرف ان ہتھیاروں کو اپنے دفاع کے لیے رکھنا چاہتے ہیں بلکہ مزید جدید اسلحہ خریدنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں گے تاکہ خود کو عسکری طور پر مضبوط کر سکیں۔

صفت اللہ صافی کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان سرحد ستر کی دہائی کے بعد سے اسلحے کی ایک بڑی منڈی رہی ہے اور آج بھی وہاں اسلحے کی اسمگلنگ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔

ان کے بقول طالبان حکومت خود اسلحہ فروخت کرنے میں ملوث نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس کے لیے یہ ایک اسٹریٹیجک مسئلہ بن سکتا ہے۔ تاہم طالبان کے کچھ عناصر انفرادی سطح پر اس میں ملوث ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

XS
SM
MD
LG