رسائی کے لنکس

امریکی ہتھیار واپس لینے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف استعمال کریں گے: طالبان کی دھمکی


  • امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے امریکی ہتھیار واپس لینے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
  • ٹرمپ کے بیان پر اپنے پہلے ردِ عمل میں طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کی سابق حکومت کے چھوڑے گئے ہتھیار مالِ غنیمت کے طور پر طالبان کے پاس ہیں۔
  • ہم ان ہتھیاروں کو چھیننے کی ہمت کرنے والے حملہ آوروں کے خلاف استعمال کریں گے: ذبیح اللہ مجاہد
  • صدر ٹرمپ نے واضح کیا تھا کہ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان کے لیے مستقبل کی مالی امداد کا انحصار امریکی فوجی ہتھیاروں کی واپسی پر ہوگا۔

اسلام آباد افغانستان میں طالبان حکومت نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں چھوڑے گئے فوجی ہتھیار ان کا حاصل کیا گیا 'مالِ غنیمت' ہےاور اسے دوبارہ حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش پر یہ ہتھیار استعمال کیے جائیں گے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 20 جنوری کو حلف برداری کے دن دیے گئے بیان کے بعد افغانستان میں قائم طالبان کی عالمی سطح پر غیر تسلیم شدہ حکومت کا یہ پہلا باضابطہ ردِعمل ہے۔

ٹرمپ نے افغانستان کے ڈی فیکٹو (عملاً) حکمرانوں سے امریکی ہتھیار واپس لینے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو ایکس کے ایک اسپیس سیشن میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ "امریکہ کی جانب سے افغانستان میں چھوڑے گئے اور سابق افغان حکومت کو فراہم کردہ ہتھیار مالِ غنیمت کے طور پر اب مجاہدین (یا طالبان فورسز) کے قبضے میں ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "افغان عوام اب ان ہتھیاروں کے مالک ہیں اور انہیں اپنی آزادی، خودمختاری اور اسلامی نظام کے دفاع کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کوئی بیرونی طاقت ہمیں ان ہتھیاروں کو امریکہ کے حوالے کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی نہ ہی ہم ان کے ہتھیار ڈالنے کا کوئی مطالبہ تسلیم کریں گے۔"

ان کے بقول "ہم ان ہتھیاروں کو چھیننے کی ہمت کرنے والے حملہ آوروں کے خلاف استعمال کریں گے۔"

واضح رہے کہ امریکہ کی قیادت میں مغربی افواج تقریباً دو دہائیوں تک افغانستان میں دہشت گرد گروپس سے لڑنے اور اس وقت کی بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت کے تحفظ کے لیے موجود رہی تھیں۔ تاہم اگست 2021 میں طالبان کی جانب سے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان افواج کاانخلا ہوا تھا۔

سال 2022 میں امریکی محکمۂ دفاع کی ایک رپورٹ میں یہ سامنے آیا تھا کہ فوجی انخلا مکمل ہونے کے بعد تقریباً سات ارب ڈالر مالیت کا فوجی ساز و سامان افغانستان میں رہ گیا تھا۔ اس ساز و سامان میں طیارے، فضا سے زمین پر مار کرنے والا گولہ بارود، فوجی گاڑیاں، ہتھیار، مواصلاتی آلات اور دیگر سامان شامل تھا جسے بعد ازاں طالبان نے قبضے میں لے لیا تھا۔

ٹرمپ نے گزشتہ ماہ واشنگٹن میں ایک ریلی سے خطاب میں کہا تھا کہ ان کے پیش رو جو بائیڈن نے "ہمارے فوجی ساز و سامان کا ایک بڑا حصہ دشمن کو دے دیا۔" انہوں نے خبردار کیا تھا کہ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان کے لیے مستقبل کی مالی امداد کا انحصار امریکی فوجی ہتھیاروں کی واپسی پر ہوگا۔

صدر ٹرمپ نے وضاحت کیے بغیر کہا تھا کہ اگر ہم سالانہ اربوں ڈالر ادا کر یں گے تو انہیں بتائیں کہ جب تک ہمارا فوجی ساز و سامان واپس نہیں کر دیتے ہم انہیں رقم نہیں دیں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو ٹرمپ کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے امریکہ سے مالی امداد کی مد میں "ایک پائی" بھی وصول نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ کابل نے واشنگٹن سے نہ تو کبھی مدد چاہی ہے اور نہ ہی کبھی اس کی توقع رکھی ہے۔

واضح رہے کہ طالبان نے اقتدار میں واپسی کے بعد سے اپنے نام نہاد 'یومِ فتح' کی تقریبات میں امریکی ساز و سامان کا مظاہرہ کیا تھا۔

افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا فروری 2020 کے دوحہ معاہدے کے بعد سے شروع ہوا تھا۔ اس معاہدے کے لیے ٹرمپ حکومت کے پہلے دور میں اس وقت کے باغی جنگجوؤں طالبان سے بات چیت کی گئی تھی۔

بعد ازاں بائیڈن دورِ حکومت میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج کا انخلا مکمل ہوا تھا۔ بائیڈن نےاس کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پاس یہ آپشن تھا کہ آیا وہ اس معاہدے پر عمل کریں یا پھر طالبان سے لڑنے کے لیے تیار رہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG