رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: کابل کا سرینا ہوٹل جہاں اب ایونٹس شاید محدود ہو جائیں


اسلام آباد — اگست 2021 کے آخری دنوں میں جب افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورتِ حال پر رپورٹنگ کے لیے کابل پہنچا تو شہر کے وسط میں واقع سرینا ہوٹل کے داخلی دروازے پر طالبان کے مقرر کردہ سیکیورٹی اہلکار نے میرا استقبال کیا۔

جب اہلکار نے تلاشی لینا شروع کی تو میں نے ان سے عرض کیا کہ "آپ سے کس زبان میں بات کی جا سکتی ہے؟"

اہلکار نے بلا تامل جواب دیا کہ "انگریزی، فارسی، پشتو اور عربی میں سے کسی بھی زبان کا انتخاب کر سکتے ہیں۔"

وہی طالبان جو کچھ عرصہ قبل تک سرینا ہوٹل پر حملے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ لیکن اب اسی عمارت کی تمام تر سیکیورٹی پر خود مامور ہو چکے تھے۔

یہ وہ لمحات تھے جب افغانستان کی تاریخ ایک نئے موڑ پر کھڑی تھی اور میرے لیے بھی یہ سب کچھ حیران کن تھا۔

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور دارالحکومت پر طالبان کے کنٹرول کے بعد کابل کا سرینا ہوٹل غیر ملکی صحافیوں اور اداروں کے لیے اہم مرکز بن گیا تھا جہاں انٹرنیٹ، بجلی اور دیگر بنیادی سہولتوں کا بہترین انتظام تھا۔

سرینا ہوٹل کی چھت سے دن رات لائیو رپورٹنگ جاری رہتی جب کہ ہوٹل کے قریب واقع مسجد عبدالرحمان ایک بہترین بیک گراؤنڈ فراہم کرتی تھی۔

طالبان کے اقتدار میں آںے کے بعد سرینا شاید واحد ہوٹل تھا جہاں خواتین بدستور استقبالیہ اور دیگر شعبوں میں کام کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں دیگر افراد کا روزگار بھی اسی ہوٹل سے وابستہ تھا جو اب غیر یقینی کا شکار ہو چکا ہے۔

سرینا ہوٹلز کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ "یکم فروری سے سرینا ہوٹل کابل اپنے تمام آپریشنز بند کر رہا ہے اور اس کا انتظام اب طالبان حکومت کی ایک کارپوریشن کے حوالے ہو چکا ہے۔"

ماضی میں سرینا ہوٹل طالبان کے حملوں کی زد میں بھی رہا ہے۔ سن 2008 میں ہونے والے ایک حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ اس حملے کی منصوبہ بندی کا الزام طالبان کی حکومت کے موجودہ وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی پر عائد کیا گیا تھا۔

سرینا ہوٹل اپنے نام اور سیکیورٹی کے سخت انتظامات کی وجہ سے کابل میں غیر ملکی سفارت کاروں، صحافیوں اور کاروباری شخصیات کے لیے سب سے محفوظ ٹھکانہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم اب اس کی منتقلی اور نئے انتظامات کے حوالے سے مختلف حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کابل میں سرینا ہوٹل نے جس قسم کا عالمی معیار برقرار رکھا تھا وہی معیار طالبان بھی رکھ پائیں گے۔

طالبان حکام کے مطابق "ہوٹل مکمل طور پر فعال ہے اور اس کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے لیے ایک عالمی ادارے سے معاہدہ کیا گیا ہے جو ہوٹلنگ کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ یہ ادارہ کابل ہوٹل کے انتظامی امور کو عالمی معیار کے مطابق آگے بڑھائے گا۔"

اگست 2021 میں جب میری سیکیورٹی چیکنگ ہوئی تو میں نے سرینا ہوٹل کے مرکزی دروازے کے باہر ایک فوارے کے قریب کچھ کبوتروں کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی۔ لیکن چند لمحوں میں طالبان اہلکاروں نے میرا موبائل چھین لیا اور سختی سے کہا کہ فوری طور پر ویڈیو ڈیلیٹ کروں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہوٹل کے اندر اور باہر ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہے۔

طالبان اہلکاروں میں سے کچھ مختلف ڈیوٹیوں پر مامور تھے جب کہ دیگر سرینا ہوٹل کے لان میں موجود خیموں میں رہتے تھے جہاں وہ اکثر سبز چائے پیتے اور نماز ادا کرتے دکھائی دیتے۔

کابل کے سرینا ہوٹل کی عمارت تین منزلوں (گراؤنڈ، فرسٹ اور سیکنڈ فلور) پر مشتمل ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس یہاں گراؤنڈ فلور کو پہلی منزل کہا جاتا ہے اور سیکنڈ فلور پر جانے کے لیے لفٹ پر 'تین' کا بٹن دبانا پڑتا ہے۔

سرینا ہوٹل کابل کے فلورز سے متعلق کنفیوژن کی وجہ سے ہی شاید بھارتی اینکر ارنب گوسوامی کا یہ دعویٰ توجہ کا مرکز بنا تھا جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے اہلکار سرینا ہوٹل کی پانچویں منزل پر موجود ہیں جب کہ حقیقت میں ہوٹل کی عمارت میں پانچویں منزل موجود ہی نہیں تھی۔

سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ سرینا ہوٹل کابل میں وہ واحد جگہ تھی جہاں صحافی، سفارت کار اور مختلف کانفرنسز آزادانہ طور پر منعقد کی جاتی تھیں۔ تاہم اب سرینا ہوٹل جیسے وسیع و عریض ہالز اور جدید سہولتوں سے آراستہ مقام پر سیمینار اور کانفرنسز کے انعقاد کے مواقع شاید محدود ہو جائیں۔

کابل کے سرینا ہوٹل کی بندش جہاں صحافیوں، سفارت کاروں اور این جی اوز سے وابستہ افراد کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ وہیں ہوٹل کے باہر ریڑھی پر جوس، بولانی اور دیگر اشیا فروخت کرنے والوں کی زندگی پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔

ایک ریڑھی بان سے جب میں نے فون پر اس حوالے سے تاثرات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بے نیازی سے کہا کہ سرینا ہوٹل کے مہمان کبھی بھی ہماری توجہ کا مرکز نہیں رہے، کیوں کہ وہ اندر ہی کھاتے تھے۔ ایسے میں ہوٹل کا انتظام کسی کے پاس بھی چلا جائے، ان کی روزی روٹی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG