|
گوگل کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین، ایران اور شمالی کوریا سمیت متعدد ملکوں کے ہیکرز، مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے جیمینائی نام کے چیٹ بوٹ کو امریکی اہداف کے خلاف سائبر حملوں میں تیزی لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
کمپنی کے مطابق اب تک گوگل کے عوامی طور پر دستیاب "لارج لینگوئج ماڈلز" ایل ایل ایمز، تک رسائی نے ہیکرز کے لیے زیادہ آسانی پیدا کر دی ہے ۔ تاہم، اس رسائی نے حملوں کی نوعیت کو بہت زیادہ تبدیل نہیں کیا ہے۔
ایل ایل ماڈلزسے مراد مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جینس) کے ایسے ماڈلز ہیں ہیں جنہیں پہلے سے تیار کردہ مواد کی بہت زیادہ مقدار کا استعمال کر کے انسانی زبانوں میں پیٹرنز یعنی نمونوں کی شناخت کے لیے تربیت دی گئی ہے۔
یہ خاصیت ان ماڈلز کو انہیں اعلی سطحی کام کرنے والے غلطی سے پاک کمپیوٹر پروگرام تیار کرنے میں مہارت دیتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق "جنریٹو " یعنی تخلیقی مصنوعی ذہانت، ہیکرز کی زیادہ تیزی اور زیادہ حجم میں کام کرنے کی اہلیت میں اضافہ کرتی ہے۔
"جنریٹو اے آئی " کم ہنر مند اور اعلیٰ ہنر مند ہیکرز دونوں کے لیے کسی حد تک فائدہ مند ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مصنف کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا منظر نامہ مسلسل تبدیل ہو رہا ہے اور ہر روز نئے نئے ماڈلز اور نظام ابھر رہے ہیں۔
"گوگل تھریٹ انٹیلی جینس گروپ" کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ارتقا کی منازل طے ہو رہی ہیں ویسے ہی خطرات کے امکانات بڑھ رہے ہیں کیونکہ ہیکرز اپنی کارروائیوں میں مصنوعی ذہانت کی جدید ٹیکنالوجی سے کام لے رہے ہیں۔
گوگل کے تحقیقی نتائج مصنوعی ذہانت کی دیگر بڑی امریکی کمپنیوں "اوپن اے آئی" اور "مائیکروسافٹ" کے تجزیے سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔
اوپن اے آئی اور مائیکرو سافٹ کو بھی گوگل کی طرح جنریٹو مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کے استعمال سے ہونے والے سائبر حملے روکنے میں ناکامی کا سامنا رہا ہے۔
گوگل نے یہ واضح کیا ہے کہ جب بھی کمپنی خطرات پیدا کرنے والےکرداروں کو شناخت کر لیتی ہے تو وہ ان کی سرگرمیوں کو روکنے کا کام کرتی ہے۔
مصنوعی ذہانت اور سائبر حملہ آور
تھنک ٹینک "کونسل آن فارن ریلیشنز" میں قائم " ڈیجیٹل اینڈ سائبر اسپیس پالیسی پروگرام" کے ڈائریکٹر ایڈم سیگل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مصنوعی ذہانت اب تک ہیکرز کو فائدہ پہنچانے والی کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کچھ چیزوں کو تیز رفتارکر تی ہے۔ یہ غیر ملکی ہیکرز کو "فشنگ" ای میلز بنانے اور کچھ کوڈ تلاش کرنے میں بہتر صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ "لیکن کیا اس نے کھیل کو ڈرامائی طور پر تبدیل کیا ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں۔"
خطرات کی قسمیں
رپورٹ میں جیمینائی کے استعمال کے نتیجے میں ہیکرز کے خطرات کو دو اقسام میں بیان کیا ہے۔
ایک طرف تو کچھ زیادہ خطرناک ہیکرز ہیں جنہیں کسی حکومت کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور ان کی ہیکنگ کی سرگرمیوں میں سائبر جاسوسی اور نیٹ ورکس کو تباہ کرنے والے حملے شامل ہوتے ہیں۔
جب کہ دوسری قسم کے خطرات میں معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد انٹرنیٹ کے صارفین کی آرا پر مربوط اور دھوکہ دہی سے کسی معاملے پر اثرانداز ہونا ہوتا ہے۔ اس قسم کے آپریشن میں جعلی آن لائن اکاونٹس استعمال کیے جاتے ہیں۔
گوگل کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ایران کے ہیکرز نے دونوں قسم کے خطرات پیدا کرنے میں جیمینائی بوٹ کا سب سے زیادہ استعمال کیا ہے۔
ایران کے مسلسل حملے کرنے والے ہیکرز نے اس سروس کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے، جس میں افراد اور تنظیموں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا، اہداف اور ان کی کمزوریوں پر تحقیق کرنا، زبان کا ترجمہ کرنا اور مستقبل کی آن لائن مہمات کے لیے مواد بنانا شامل ہے۔
اسی طرح گوگل نے چین میں 20 سے زیادہ حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والے ہیکرز کا کھوج لگایا جو اپنی کارروائیوں میں جیمینائی چیٹ بوٹ استعمال کر رہے تھے۔
شمالی کوریا کے ریاستی حمایت یافتہ سائبر حملہ آوروں نےبہت سی کارروائیوں کے لیے جیمینائی کا استعمال کیا ۔
معلومات کے آپریشن
ایران نے معلومات کے آپریشن کے ذریعہ خطرات پیدا کرنے کے لیے جیمینائی کا سب سے زیادہ استعمال کیا۔ گوگل نے ایران کی اس قسم کی جن کاروائیوں کا سراغ لگایا ان میں 75 فیصد میں جیمینائی کا استعمال کیا گیا۔
ایرانی ہیکرز نےجیمینائی سروس کو استعمال کرتے ہوئے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی کوششں کی۔
چین کے ہیکرز نے بنیادی طور پر جیمینائی سروس کو تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا جن میں چینی حکومت کے اسٹریٹجک مفادات کے معاملات کے لیے چھان بین شامل تھی۔
حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والے دوسرے ہیکرز کے برعکس روسی ہیکرز نے معلومات کے آپریشنز میں جیمینائی کا زیادہ استعمال کیا۔ انہوں نے جیمینائی کے ذریعہ نہ صرف مواد تیار کیا بلکہ آن لائن مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ بنانے اور ان کے استعمال کے لیے معلومات اکٹھی کرنے کے لیے بھی اس سے کام لیا۔
تعاون اور شراکت داری پر زور
گوگل کے گلوبل افیئرز کے صدر کینٹ واکر نے اپنے ایک بلاگ میں ہیکرز کی طرف سے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ ٹیکنالوجی کی صنعت اور وفاقی حکومت کو قومی اور اقتصادی سیکیورٹی بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
واکر نے لکھا کہ امریکہ آرٹیفشل ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سب سے آگے ہے لیکن اسے حاصل شدہ فوائد شاید ہمیشہ برقرار نہ رہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کو فوج اور انٹیلی جینس اداروں میں مصنوعی ذہانت، "کلاؤڈ "اور تبدیلی لانے والی دوسری ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے لیےضوابط کو بہتر بنانے کی ضروت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے سائبر دفاع کے لیے نجی اور سرکاری شراکت داری کا مشورہ بھی دیا۔
وائس آف امریکہ نیوز
فورم