رسائی کے لنکس

جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والی کالعدم تنظیم 'بی ایل اے' کیسے وجود میں آئی؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • بی ایل اے کے قیام کو لگ بھگ 55 برس ہو گئے ہیں اور اس کے دو دھڑے بلوچستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔
  • جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمے داری بی ایل اے کے بشیر زیب گروپ نے قبول کی ہے۔
  • بی ایل اے نے عسکری کارروائیوں کے لیے اپنا الگ یونٹ بنا رکھا ہے جسے مجید بریگیڈ کہا جاتا ہے۔

ویب ڈیسک _ کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمے داری قبول کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ 214 مسافر اس کی تحویل میں ہیں۔

کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین پر منگل کی دوپہر لگ بھگ ایک بجے بولان کے پہاڑی علاقے میں مسلح افراد نے حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔

سیکیورٹی فورسز نے 104 مسافروں کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ٹرین پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔

جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر کالعدم بی ایل اے کا نام زیرِ بحث ہے۔ یہ تنظیم بلوچستان میں ہونے والے متعدد کارروائیوں سمیت صوبے سے باہر کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینچ، چین کے قونصل خانے اور ایئرپورٹ پر ہونے والے حملوں کی ذمے داری قبول کرچکی ہے۔

بی ایل اے کے قیام کو لگ بھگ 55 برس ہو گئے ہیں اور اس کے دو دھڑے بلوچستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ تنظیم کے ایک دھڑے کے سربراہ بشیر زیب ہیں جب کہ دوسرا دھڑا حیربیار مری کا ہے جو لندن میں مقیم ہیں۔

جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمے داری بی ایل اے کے بشیر زیب گروپ نے قبول کی ہے۔ یہ گروپ صوبے بھر میں سرگرم ہے اور حیربیار مری گروپ کے مقابلے میں زیادہ سرگرم ہے۔

کالعدم بی ایل اے چین کی سرمایہ کاری اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی مخالف رہی ہے۔

اس تنظیم کے کارکن زیادہ تر مکران ڈویژن کے علاقوں سے گزرنے والی سی پیک راہداری اور قومی شاہراہوں پر چین کے باشندوں کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے لیے کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔

بی ایل اے کے قیام کا پس منظر

کئی بلوچ دانشوروں اور ادیبوں کا کہنا ہے کہ 1948 میں ریاست قلات کی پاکستان کے ساتھ (بقول ان کے جبری) الحاق کے بعد جب شہزادہ عبد الکریم اور ان کے ساتھی پہاڑوں کا رخ کر گئے تھے۔ اس وقت سے بلوچ قوم میں یہ احساس زور پکڑتا گیا کہ ریاست کی بحالی کے لیے ایک منظم ترقی پسند سوچ کی حامل سیاسی قوت کی ضرورت ہے جو بلوچ معاشرے میں نظریاتی بنیادوں پر نوجوانوں کی رہنمائی کرے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد بھی کرے۔

اس مقصد کے لیے کوششیں جاری تھیں۔ 1956 میں بلوچ سیاسی رہنماﺅں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) تشکیل دی۔ اس دوران 1960 میں بلوچوں کو ایک بار پھر ریاست کی پالیسیوں کے باعث پہاڑوں کا رخ کرنا پڑا تاہم بعد میں ریاست سے مذاکرات کے بعد سردار نوروز خان اور ان کے ساتھی پہاڑوں سے نیچے آئے۔ تاہم انہیں گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی۔ جس سے بلوچوں کا غم و غصہ مزید بڑھ گیا۔

بلوچستان اور خیبر پختونخوا (جو اس وقت صوبہ سرحد کہلاتا تھا) میں 1970 کے انتخابات میں نیپ کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ لیکن اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی حکومت برطرف کردی۔ نیپ کے رہنماﺅں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے اس اقدام کے بعد بلوچستان میں ایک بار پھر مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا۔ اس دوران بلوچ نوجوانوں میں یہ سوچ بھی پختہ ہونا شروع ہوئی کہ ریاست کو بلوچوں کی پر امن سیاسی جدوجہد قبول نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی پلیٹ فارم کے ساتھ مسلح جدوجہد بھی ضروری ہے۔

اسی سال یعنی 1970 میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) تشکیل دی گئی۔ بی ایل اے سے وابستہ نوجوان 1977 تک صوبے کے مختلف پہاڑوں میں روپوش رہے جب کہ اس دوران مسلح کارروائیاں بھی جاری رہیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ میں اس سے متعلق خبریں نہیں آئیں۔

خیربخش مری۔
خیربخش مری۔

بلوچ رہنما خیر بخش مری

جب جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا لگایا تو نیپ کے رہنماؤں کو بھی رہا کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں بلوچستان کے ترقی پسند، قوم پرست اور سوشلسٹ رہنما نواب خیر بخش مری کی قیادت میں بلوچ نوجوان بڑی تعداد میں افغانستان چلے گئے تھے۔ بلوچ نوجوانوں نے افغانستان کے علاقے ہلمند میں قیام کیا تھا۔ نواب خیر بخش مری اسی خود ساختہ جلا وطنی کے دوران یورپ چلے گئے۔

برطانیہ میں قیام کے دوران نواب خیر بخش مری نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ روس کی فوج اور افغان مجاہدین کے حملوں کے طریقوں سے انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔

افغانستان کے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد نواب خیر بخش مری کے ساتھیوں کو افغانستان سے واپس پاکستان آنا پڑا۔

واپسی کے بعد نواب مری اور ان کے ساتھی کافی عرصہ خاموش رہے۔ تاہم 2000 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں بلوچستان کے قدرتی وسائل کے حوالے سے بعض بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کیے گئے۔

نواب خیر بخش مری اور ان کے ساتھیوں نے ان معاہدوں کی شدید مخالفت کی جب کہ مبینہ طور پر بلوچ عسکریت پسندوں نے صوبے کے مختلف اضلاع میں سیکیورٹی فورسز اور قومی تنصیبات پر حملے شروع کر دیے۔ ان حملوں کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کرنا شروع کردی۔

اس دوران بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نواز مری کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ جس پر حکومت نے نواب خیر بخش مری کو جسٹس نواز مری کے قتل کے کیس میں گرفتار کر لیا۔

دوسری جانب بی ایل اے کی کارروائیاں بڑھتی گئیں۔ بالخصوص کوئٹہ اور دیگر اضلاع میں سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

نواب اکبر بگٹی۔
نواب اکبر بگٹی۔

بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی میں 2005 میں مسلح افراد نے سوئی گیس پلانٹ پر حملہ کیا۔ اس کے بعد 2006 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک فوجی کارروائی میں بلوچستان کے سابق گورنر و سابق وزیر اعلیٰ نواب اکبر خان بگٹی کو ہلاک کیا گیا۔ جس سے صوبے کے لوگوں میں ایک بار پھر شدید غم و غصہ دیکھا گیا۔

اس دوران صوبے میں ہونے والے بیشتر واقعات کی ذمے داری بلوچستان لبریشن آرمی قبول کرتی آ رہی تھی جس پر وفاقی حکومت نے 2006 میں بی ایل اے پر پابندی عائد کر دی۔

یہ اطلاعات گردش کرتی رہتی تھیں کہ نواب خیر بخش مری کے ایک بیٹے نواب زادہ بالاچ مری کالعدم بی ایل اے کے سربراہ مقرر کیے جا چکے ہیں۔ تاہم بالاچ مری نے اپنی زندگی میں اس کی تصدیق نہیں کی۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 2007 میں نواب زادہ بالاچ مری پاک افغان سرحد کے قریب ایک کارروائی میں ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد بالاچ مری کے چھوٹے بھائی میر حیربیار مری کالعدم بی ایل اے کے سربراہ ہیں۔

حیربیار مری نے لندن میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور وہ بلوچستان میں برسر پیکار کسی بھی تنظیم سے وابستگی کی تردید کرتے رہے ہیں۔

بی ایل اے کا پہلا خود کش حملہ

بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد کالعدم بی ایل اے کے فیلڈ کمانڈر کے طور پر اسلم بلوچ عرف اسلم اچھو کا نام سامنے آیا تھا۔ وہ بھی سیکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد وہ افغانستان چلے گئے تھے۔

اسلم اچھو کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے صحت یاب ہونے کے بعد اپنی کارروائیوں کے سلسلے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قیام کیا۔ اس دوران انہوں نے بلوچ نوجوانوں کو خود کش حملوں کے لیے تیار کیا۔

اگست 2018 میں دالبندین کے قریب ریکوڈیک پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کو کراچی لے جانے والی ایک بس پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں چینی انجینئر محفوظ رہے تھے۔ اس حملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے یہ پہلا خود کش حملہ تھا جو اسلم اچھو کے بیٹے سمیت تین نوجوانوں نے کیا تھا۔

اس کے بعد کراچی میں چینی قونصل خانے پر تین بلوچ مسلح نوجوانوں نے حملہ کیا جس کی ذمہ داری بھی کالعدم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

اس کے بعد اسلم اچھو ایک بار پھر افغانستان کے شہر قندھار چلے گئے جہاں عینومینہ کے علاقے میں ان پر نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر خود کش حملہ کیا۔ اس خود کش حملے میں اسلم اچھو ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے تھے۔

اسلم اچھو کی ہلاکت کے بعد کالعدم بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نے سنبھالی۔ بشیر زیب کی قیادت میں بی ایل نے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

مجید بریگیڈ

بی ایل اے نے عسکری کارروائیوں کے لیے اپنا الگ سے یونٹ بنا رکھا ہے جسے مجید بریگیڈ کہا جاتا ہے۔

بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ تنظیم کی عسکری کارروائیوں کے بعد جاری کردہ بیانات میں مجید بریگیڈ کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مجید بریگیڈ کے تربیت یافتہ جنگجوؤں نے حملہ کیا ہے۔

مجید نام کو بلوچ علیحدگی پسند نوجوانوں اور بعض بلوچ قوم پرست طلبہ تنظیموں میں بہت اہمیت، عزت اور احترام حاصل ہے۔

مجید نام سے متعلق صوبے کے نوجوانوں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جب مکران ڈویژن کے نوجوانوں کو مسقط کی فوج کے لیے بھرتی کیا جا رہا تھا۔ اس وقت مجید بلوچ نامی ایک نوجوان نے اس فوجی افسر پر پستول سے فائر کیا تھا جو نوجوانوں کو بھرتی کر رہا تھا۔ اس کے بعد اس نوجوان کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG