رسائی کے لنکس

امریکہ کی پانچ جامعات میں یہود مخالف الزامات کی تحقیقات کا آغاز


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے وعدوں میں شامل تھا کہ وہ تعلیمی اداروں میں یہود مخالفت کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔
  • جن جامعات میں یہود مخالفت کی تحقیقات ہو گی اُن میں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے، یونیورسٹی آف منی سوٹا، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور پورٹ لینڈ یونیورسٹی شامل ہیں۔
  • تعلیمی اداروں میں یہود مخالفت کے خاتمے کے لیے نئی ٹاسک فورس بنائی جا رہی ہے، محکمۂ انصاف

ویب ڈیسک —امریکہ کے محکمۂ تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ملک کی پانچ جامعات میں یہود مخالفت کے الزامات کی تحقیقات شروع کر رہی ہے۔ ان جامعات میں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے بھی شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی وعدوں میں شامل تھا کہ وہ امریکی جامعات میں بڑھتی ہوئی یہود مخالفت کے خلاف سخت اقدامات کریں گے اور بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ سخت سزائیں دیں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ہی ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت تعلیمی اداروں میں یہودیوں کے خلاف تعصب سے نمٹنے کے لیے جارحانہ اقدامات کا کہا گیا تھا۔ ان اقدامات میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں شرکت کرنے والے غیر ملکی طلبہ کی ملک بدری کا اقدام بھی شامل ہے۔

امریکی محکمۂ تعلیم کے مطابق نیویارک کی کولمبیا یونیوسٹی اور برکلے میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف منی سوٹا، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور پورٹ لینڈ یونیورسٹی میں بھی یہود مخالفت کے الزامات کی تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے۔

ان جامعات کی جانب سے تاحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔

محکمۂ تعلیم کا یہ اقدام ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب محکمۂ انصاف نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں یہود مخالفت کے خاتمے کے لیے نئی ٹاسک فورس بنا رہا ہے۔

سات اکتوبر 2023 کو فلسطینی عسکری تنظیم حماس نے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کیے تھے جس کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کے خلاف ان تعلیمی اداروں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے تھے۔

محکمۂ تعلیم کے قائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری برائے شہری حقوق گریگ ٹرینر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ محکمۂ تعلیم نے آج یونیورسٹیوں، کالجوں اور بارہویں جماعت تک کے تعلیمی اداروں کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔

ان کے بقول موجودہ حکومت تعلیمی اداروں میں یہودی طلبہ کے ساتھ مسلسل روا رکھی جانے والی ادارہ جاتی تفریق کو برداشت نہیں کرے گی۔

محکمۂ تعلیم کی جانب سے شروع کی گئی ان تحقیقات کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ تحقیقات کے لیے ان تعلیمی اداروں کا انتخاب کس بنیاد پر کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی ایک کمیٹی نے ری پبلکن ارکان کے مطالبے پر تعلیمی اداروں میں یہود مخالفت کے الزامات پر سماعتیں کی تھیں جن میں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سمیت کئی یونیورسٹیز کے سربراہ کو طلب کیا گیا تھا۔

ان سماعتوں کے بعد کئی تعلیمی اداروں کے صدور مستعفی بھی ہوئے تھے جن میں کولمبیا یونیورسٹی کی مصری نژاد صدر نعمت مینوش شفیق بھی شامل تھیں۔

ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکن ارکان نے گزشتہ برس اکتوبر میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے کرنے والے ان طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی میں ناکام رہی جنہوں نے احتجاج کے دوران یونیورسٹی کی ایک عمارت پر قبضہ کر لیا تھا۔

رپورٹ میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے احتجاج کرنے والے طلبہ سے مذاکرات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن ارکان نے محکمۂ تعلیم کی جانب سے نئی تحقیقات کے آغاز کا خیر مقدم کیا ہے۔

کیلی فورنیا: ہائی اسکولز کے اسرائیل-فلسطینی ہسٹری کورس پر تنازع
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:08 0:00

ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن رکن اور ’ایجوکیشن اینڈ ورک فورس کمیٹی‘ کے سربراہ ٹِم والبرگ نے کہا ہے کہ انہیں خوشی ہے کہ اب ایک ایسی حکومت موجود ہے جو یہودی طلبہ کے تحفظ کے اقدامات کر رہی ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری کیے گئے حکم نامے میں بھی کہا گیا ہے کہ محکمۂ تعلیم سات اکتوبر 2023 کے بعد یہود مخالفت کے حوالے سے دائر ہونے والی ان تمام شکایات کا بھی جائزہ لے جو اب تک تعطل کا شکار ہیں یا انہیں بائیڈن حکومت میں نمٹا دیا گیا تھا۔

اس حکم نامے میں محکمۂ انصاف کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ شہری حقوق کے قوانین کے نفاذ کے لیے اقدامات کرے۔

گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے اس حکم نامے پر انسانی حقوق کی بعض تنظیموں نے تنقید کرتے ہوئے اسے امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے منافی قرار دیا تھا، جو شہریوں کو آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق دیتی ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG