|
پشاور—پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصروف ترین سرحدی گزرگاہ طورخم پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ دو طرفہ فائرنگ میں متعدد افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
طورخم کی سرحدی گزرگاہ 21 فروری سے ہر قسم کی آمد و رفت اور تجارت کے لیے بند ہے۔ اسی گزرگاہ کے اطراف اتوار اور پیر کی درمیانی شب دونوں ممالک کے سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔
سول انتظامیہ اور پولیس حکام نے اس فائرنگ سے فرنٹیئر کور (ایف سی) کے تین اہلکار اور ایک عام شہری زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ البتہ سرکاری طور پر باضابطہ کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے لنڈی کوتل کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا۔
طورخم کے سول عہدیداروں نے مزید بتایا کہ فائرنگ کے شروع ہوتے ہی بھگدڑ سے ایک معمر شخص کو دل کا دورہ پڑا جس سے اس کی موت ہوئی۔ ہلاک ہونے والا شخص ڈرائیور تھا۔
افغانستان کی حدود میں فائرنگ سے ہونے والے نقصان کے بارے میں تفصیلات موصول نہیں ہوئیں۔ تاہم افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ صوبے ننگرہار میں طالبان نے تصدیق کی ہے کہ اتوار کی رات سے پیر کی صبح تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔
طورخم میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ پیر کی صبح بھی فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ تاہم بعد میں خاموشی چھا گئی۔
پولیس اور انتظامی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد اب طورخم میں مکمل خاموشی ہے۔ سرحدی گزر گاہ طورخم میں 21 فروری سے موجود ٹرک ڈرائیوروں سمیت زیادہ تر افراد سرحدی قصبے لنڈی کوتل منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
سرکاری طور پر فائرنگ کے تبادلے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ البتہ ضلع خیبر کے انتظامی اور پولیس حکام اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔
طورخم میں موجود عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا تبادلہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ساڑھے بارہ بجے شروع ہوا تھا اورابتدائی طور پر آدھے گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران دونوں جانب سے جدید ہتھیار استعمال کیے گئے ۔
مقامی صحافی مہراب آفریدی نے فائرنگ کے تبادلے کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان سے فائر کیا جانے والا ایک مارٹرگولہ طورخم کے گاؤں باچا مینہ میں ایک گھر پر گرا جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم اس سے گھر کو جزوی نقصان پہنچا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مہراب آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اس گاؤں سے بہت سے افراد جان بچانے کے لیے قریبی دیہات میں نقل مکانی کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں صوبائی حکام نے گزشتہ رات طالبان اور پاکستانی سرحدی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی اطلاع دی ہے جس میں مبینہ طور پر ایک ٹرک ڈرائیور ہلاک اور پاکستان کے حدود میں ایف سی کے اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
افغانستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ’باختر‘ نے طالبان کے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستانی سرحدی فورسز نے طالبان کے سیکیورٹی اہلکاروں پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ سرحد کے قریب ایک فوجی مرکز تعمیر کر رہے تھے جس کے نتیجے میں فریقین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
طورخم کی سرحدی گزرگاہ دو ہفتے قبل جمعے کو اس وقت بند کر دی گئی تھی جب افغان طالبان عہدیداروں نے مبینہ طور پر ایک متنازع جگہ پر چوکی کے تعمیر پر پاکستانی حکام کے اعتراض کو مسترد کر دیا تھا ۔
سرحدی گزرگاہ کھولنے کے لیے مذاکرات کا پہلا دور گزشتہ منگل جب کہ دوسرا اتوار کو ہوا تھا۔
دوسرے دور کے مذاکرات شروع ہوتے ہی طورخم میں موجود تاجروں اور دیگر افراد نے سرحدی گزرگاہ کے جلد کھلنے کی امید ظاہر کی تھی۔ لیکن مذاکرات میں طالبان نے کچھ شرائط پیش کیں جس کے بعد یہ بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی۔
اتوار کے مذاکرات کے بعد افغان طالبان نے جاری بیان میں کہا کہ مذاکرات میں نائب گورنر ننگرہار عزیز اللہ مصطفیٰ اور صوبائی ڈائریکٹر دفتر خارجہ موجود تھے۔پاکستانی حکام سے مذاکرات میں سرحد دوبارہ کھولنے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ بیان کے مطابق طالبان نے مذاکرات میں اس بات پر زور دیا کہ سرحدی گزر گاہ 24 گھنٹے کھلی رہنی چاہیے۔ دوطرفہ تجارت کے ساتھ ساتھ مریضوں اور مسافروں پر کسی بھی قسم کی پابندی نہ لگائی جائے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ سرحد تاحال بند ہے۔ عوام مزید اعلانات کا انتظار کریں۔
طورخم کی سرحدی گزرگاہ کی بندش سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور آمد و رفت بند ہے بلکہ اس سے قبائلی ضلعے خیبر کے بیشتر علاقوں میں معمولات زندگی بھی متاثر ہوئے ہیں ۔
پاکستانی حکام مسلسل بیانات دے رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارے ’ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کونفلیکٹ اسٹڈیز‘ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے نسبت 2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ 2024 میں دہشت گردی کے 521 واقعات میں مجموعی طور پر 852 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گردی کے زیادہ واقعات افغانستان سے ملحقہ صوبے خیبر پختونخوا میں ہوئے ہیں۔
اسلام آباد یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان میں محفوط پناہ گاہیں ہیں۔پاکستان ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
البتہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان پاکستان کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں۔دو طرفہ الزامات کے سبب سرحد پر بھی کشیدگی رہتی ہے اس کے نتیجے میں اب طورخم سمیت سرحد کے کئی مقامات پر جھڑپیں تواتر سے ہو رہی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں طورخم کی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے افغانستان میں برسرِ اقتدار آنے اور پاکستان کی جانب سے یک طرفہ طور پر سرحدی پابندیوں کے نفاذ کے بعد فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں طورخم سمیت مختلف سرحدی گزرگاہوں پر کشیدگی معمول بن رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر دو طرفہ تجارت اور آمد و رفت کا سلسلہ روایات کے تحت چل رہا ہے۔ ان روایات میں تعمیرات سمیت ہر قسم کے معاملات پر ایک دوسرے کو اعتماد میں لینا سر فہرست ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ چند برس سے دونوں جانب سے ایک دوسرے کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا جس کی وجہ سے حالات ابتر ہو رہے ہیں۔
سید اختر علی شاہ کے بقول دونوں ممالک بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب کو مدِنظر رکھ کر طورخم اور دیگر سرحدی گزرگاہوں کے حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔