کرم کے سول اور پولیس عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ضلع کرم کے لیے تھل کینٹ سے جانے والے امدادی قافلے پر راکٹ حملہ کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج خیبرپختونخوا میں جاری فوجی کارروائیوں کے تناظر میں سیاسی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق مبینہ عسکریت پسندوں کے ساتھ رُکن صوبائی اسمبلی جوہر محمد خان کی سربراہی میں جرگے نے پیر کو مغویوں کی بازیابی کے لیے رابطے کیے ہیں۔
ہفتے کو رات گئے ختم ہونے والے جرگے میں حکام نے اغواء کار طالبان عسکریت پسندوں کے مطالبات پر غور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق گزشتہ روز مغویوں کی بازیابی کی کارروائی کے دوران تین افراد زخمی ہوئے تھے جو فوجی اسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور ان میں سے دو کی حالت نازک ہے۔
مقامی افراد کے مطابق جمعرات کی صبح اٹھ بجے لکی مروت سے ایک گاڑی اٹامک انرجی کمیشن اف پاکستان کے اہلکاروں کو لے کر قبول خیل کی طرف جا رہی تھی۔
صدہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی محمد جمیل کہتے ہیں کہ قافلے میں شامل 10 ٹرکوں میں بگن قصبے کے 23 اور 24 نومبر کے درمیانی شب کے واقعے میں متاثرین کے لیے امدادی سامان ہے جو مقامی انتظامیہ کے ذریعے تقسیم کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم کے ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے کے بعد صوبائی حکومت نے امن معاہدے پر دستخط کرنے والے عمائدین سے باز پرس اور ملوث ملزمان کے ساتھ ساتھ ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ڈپٹی کمشنر کرم پر بگن کے علاقے میں نامعلوم شرپسندوں نے فائرنگ کی۔
معاہدے میں کہا گیا ہے ہے اگر کسی علاقے میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو امن کمیٹیاں فوری متحرک ہوں گی۔ دوسرا فریق اس پر کوئی جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔
بعض مبصرین کے مطابق وفاقی حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف کے مابین اختلافات اور اسلام آباد کے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان سے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے بھی پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو کارروائیوں میں تیزی لانے کا موقع ملا ہے۔
پاڑہ چنار روڈ کی مسلسل بندش کے خلاف سب سے زیادہ احتجاجی دھرنے اور مظاہرے ملک کے سب سے بڑے اور اہم تجارتی شہر کراچی میں ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں شہر مں آمدورفت بری طرح متاثر ہے۔
پاڑہ چنار میں جمعے کو احتجاجی دھرنا آٹھویں روز بھی جاری ہے جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پشاور، کراچی اور دیگر شہروں میں مطالبات کے حق میں دھرنے اور مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
سڑکوں کی بندش اور کشیدگی کے باعث نقل و حمل میں آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے کرم میں گیس کے سلینڈر اور جلانے والی لکڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
انتظامیہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز کی سرحدی چوکی لتا سر پر جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب حملہ کیا۔ حملے میں جدید خودکار ہتھیار استعمال کیے گئے۔
ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ضلع کرم میں موجود تمام بنکرز کو ختم کربے کے علاوہ لوگوں سے غیر قانونی اسلحہ واپس لینے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔
انسدادِ پولیو مہم میں شامل افراد پر پہلا حملہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں پیر کو علی الصبح پیش آیا جہاں نامعلوم عسکریت پسندوں نے فائرنگ کر کے ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل کو ہلاک اور پولیو ورکر کو زخمی کر دیا۔
سن 1970 کی دہائی میں خاندان سمیت افغانستان سے پاکستان منتقل ہونے والے خلیل الرحمان حقانی کے ساتھ پشاور کے مختلف علاقوں حیات آباد، یونی ورسٹی ٹاؤن کوہاٹ روڈ اور چمکنی میں حقانی خاندان کے گھروں اور حجروں میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔
ضلع کرم کے ایک اور رہائشی میر افضل کا کہنا تھا کہ شدید سردی میں گیس اور جلانے کے لیے لکڑی کا نہ ہونا مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اکتوبر سے اب تک گیس سلینڈرز کی ترسیل بند ہے۔
کرم کے سول انتظامی عہدے داروں کے مطابق فرنٹیئر کور کے 156 ونگ ٹل اسکاؤٹس کی چیک پوسٹ پر نامعلوم دہشت گردوں نے ہفتے کی صبح بھاری اور خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا۔
مزید لوڈ کریں