|
پشاور _ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں قیام امن کے لیے حکومت نے شر پسند عناصر کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے آپریشن شروع کر دیا ہے۔
ضلع کرم میں گرینڈ جرگے کی کوششوں سے ہونے والے امن معاہدے کے باوجود شورش ختم نہیں ہوئی۔ علاقے میں امن و امان بحال کرنے کی غرض سے سیکیورٹی فورسز نے اتوار اور سوموار کو مختلف مقامات پر شرپسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق سول انتظامیہ کو پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ آپریشن کا مقصد بنیادی طور پر کچھ وقت حاصل کرنا ہے تاکہ فریقین خود ہی اس مسئلے کے کسی ممکنہ حل تک پہنچ سکیں۔
شدت پسندی کے موضوع کے ماہر سینئر تجزیہ کار داؤد خٹک کہتے ہیں کہ حکومت کی حکمتِ عملی وقتی اقدامات پر مبنی نظر آتی ہے، جو مسئلے کے پائیدار حل کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اہلِ تشیع اور اہلِ سنت، دونوں طبقات کی ناراضگی مول لینے سے اجتناب کر رہی ہے۔
ان کے بقول، اگر آپریشن صرف اہل سنت کے علاقوں تک محدود رکھا جاتا ہے تو اہل سنت ناراض ہو جاتے ہیں اور اگر اہل تشیع کے علاقوں میں کارروائی کی جاتی ہے تو اہلِ تشیع کے تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔ اس صورتِ حال نے حکومت کو شدید مخمصے میں ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک بھرپور فوجی آپریشن کے حوالے سے مرکز کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہے۔
داؤد خٹک کے مطابق، موجودہ حالات میں ضلع کرم میں وزیرستان طرز کے آپریشن کی توقع نہیں کی جا سکتی، جس میں توپ خانہ، آرٹلری، ٹینک اور بڑی تعداد میں فوجی تعینات کیے گئے تھے۔
ضلع کرم کے علاقے بگن سے تعلق رکھنے والے صحافی نبی جان کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے اہلِ سنت کے علاقے بگن اور اہلِ تشیع کے علاقے علیزئی سے ملحقہ پہاڑی مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نبی جان نے بتایا کہ بگن کا علاقہ اس وقت مکمل طور پر سیل ہے جب کہ ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ تاہم، مندوری کے علاقے میں مظاہرین 22 نومبر کو ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور حملوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
واضح رہے کہ 21 نومبر کو پشاور سے پاڑہ چنار جانے والے اہلِ تشیع کے ایک قافلے کو بگن کے مقام پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں 40 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کے ردِ عمل میں اگلے روز مشتعل مظاہرین نے بگن پر حملہ کر کے سینکڑوں دکانوں اور گھروں کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔ ان واقعات کے بعد سے علاقے میں حالات شدید کشیدہ ہیں اور سیکیورٹی فورسز کشیدگی کو کم کرنے کے لیے متحرک ہیں۔
'مقامی آبادی آپریشن کو یکطرفہ کارروائی سمجھتی ہے'
صحافی نبی جان کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے پیر کو سینٹرل کرم کے مضافاتی علاقوں جڑنہ، پستونہ اور مندرا کے ساتھ ساتھ بگن کے اندر اور اس سے ملحقہ خیر آباد، مزیدہ میلہ، اسپین کانڑی اور خچینہ کے علاقوں میں شیلنگ کی۔
ان کے بقول، علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد میں گاڑیاں دیکھی گئی ہیں اور بعض مقامات سے راکٹ فائر کیے جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
نبی جان کا کہنا ہے کہ 22 نومبر کے بعد بگن کے علاقے سے تقریباً 90 فی صد آبادی پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکی ہے۔
ان کے بقول مقامی آبادی آپریشن کو یکطرفہ کارروائی سمجھتی ہے جس کے باعث صورتِ حال کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔
صوبائی حکومت نے آپریشن کے باعث بڑی تعداد میں نقل مکانی کے پیشِ نظر ہنگو میں ضلعی انتظامیہ کو ضروری امدادی اشیا فراہم کر دی ہیں۔
ڈپٹی کمشنر ہنگو گوہر زمان وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے نان فوڈ آئٹمز کے 22 ٹرک ہنگو پہنچ چکے ہیں، جن میں کمبل، میٹرس، خیمے، ہائی جین کٹس اور دیگر ضروری سامان شامل ہے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق محمد گٹ کے علاقے میں مہاجر کیمپ کے قیام کے لیے تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ یہ سرکاری زمین ہے جہاں پینے کے پانی، بنیادی صحت مرکز (بی ایچ یو)، اسکول اور دیگر تمام بنیادی سہولتیں پہلے سے موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹل کے علاقے میں بھی مہاجرین کی ممکنہ نقل مکانی کے لیے مخصوص مقامات کی نشاندہی کر لی ہے، تاکہ لوگوں کو بغیر کسی افرا تفری کے منظم انداز میں امدادی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
تجزیہ کار داؤد خٹک کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا یا فوج سمیت کوئی بھی کرم آپریشن کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت آپریشن کے لیے لاجسٹک مسائل درپیش ہیں کیوں کہ فوج پہلے ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف مصروفِ عمل ہے، جس میں اسے شدید مشکلات اور جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کے مطابق، کرم آپریشن کو نہ ہی وفاقی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور نہ ہی تمام وسائل کو منظم طریقے سے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
داؤد خٹک نے کہا کہ کرم آپریشن کے لیے موسم کا انتخاب بھی غیر موزوں ہے، جو اس کی کامیابی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ماضی کے آپریشنز کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ گزشتہ دو دہائیوں میں 20 سے زائد چھوٹے اور بڑے فوجی آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ لیکن سوات کے علاوہ کسی بھی علاقے میں حالات کو مکمل طور پر قابو میں نہیں لایا جا سکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ آپریشن کی کامیابی پر بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔ کیوں کہ پائیدار امن کے لیے صرف فوجی کارروائی کافی نہیں بلکہ ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
فورم