|
اسلام آباد— گلگت بلتستان میں دیامیر بھاشا ڈیم کے متاثرین کا شاہراہِ قراقرم سے ملحقہ گراؤنڈ میں گزشتہ 11 روز سے دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین حکومت سے ڈیم کی اراضی کا معاوضہ اور دیگر وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مظاہرین حکام کو 31 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کر چکے ہیں جس میں مقامی آبادی کو منصوبے میں ملازمتیں دینے، رائلٹی مختص کرنے، ضلع دیامیر کے لیے مفت بجلی اور صحت و تعلیم کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے نکات شامل ہیں۔
مذاکرات اب تک بے نتیجہ رہے ہیں۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ اسی لیے اب تک احتجاج جاری ہے۔ مظاہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ ڈیم کی جانب مارچ کرکے تعمیراتی کام رکوا دیں گے۔
چلاس سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی محمد قاسم کا کہنا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم ابتدا سے ہی تنازعات کی زد میں رہا ہے۔ 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے منصوبے کا اعلان بھاشا ڈیم کے نام سے کیا تھا۔ تاہم دیامیر کے عوام کے احتجاج کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے دیامیر بھاشا ڈیم رکھا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد زمین کے حصول اور معاوضے کی ادائیگی کا طریقۂ کار طویل عرصے تک تنازعات کا شکار رہا جو آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور احتجاج کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی محمد قاسم نے مزید بتایا کہ ڈیم گلگت بلتستان کے علاقے دیامیر اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے بھاشا میں تعمیر ہو رہا ہے۔ اسی لیے اس کا نام دیامیر بھاشا ڈیم رکھا گیا۔یہ ڈیم دریائے سندھ پر بنایا جا ریا ہےاس کی بلندی 272 میٹر جب کہ بجلی کی پیداوار کی استعداد ساڑھے چار ہزار میگا واٹ ہو گی۔
محمد قاسم کے مطابق اس ڈیم کا منصوبہ 45 برس قبل 1980 سے زیر بحث رہا ہے اور مختلف حکومتوں نے محض پبلسٹی اسٹنٹ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کئی بار افتتاح کیا۔ لیکن عملی طور پر اس کی تعمیر کا آغاز جولائی 2020 میں ہوا۔
واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی ویب سائٹ کے مطابق دیا میر بھاشا ڈیم تربیلا ڈیم سے 315 کلومیٹر بلندی پر جب کہ چلاس سے 40 کلومیٹر نیچے ہے۔ یہ منصوبہ پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی کی پیداوار کے لیے ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔
واپڈا حکام کے مطابق اس ڈیم کی تعمیر پر 479 ارب روپے لاگت آئے گی۔ اس ڈیم میں پانی کے اخراج کے لیے 14گیٹ تعمیر کیے جائیں گے جب کہ اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 8.1 ملین ایکڑ فٹ ہو گی۔
دیامیر بھاشا ڈیم کے متاثرین کے جاری دھرنے میں 'سونے وال برادری' بھی شریک ہے جس کی نمائندگی محمد روان کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے پر سونا نکالنے کے پیشے سے منسلک افراد ڈیم کی تعمیر کے بعد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد روان نے مزید بتایا کہ حکومت نے زمین کی ری لوکیشن کے لیے ادائیگیاں تو کر دی ہیں۔ لیکن ان روزگار کے ختم ہونے کا کوئی متبادل ذریعہ فراہم نہیں کیا گیا۔
گلگت بلتستان کی سماجی شخصیت ثروت صبا نے چلاس میں جاری دھرنے کے حوالے سے کہا کہ مظاہرین کے مطالبات جائز ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کو متنازع قرار دینے کی کوشش کے پیشِ نظر حکومت کو چاہیے کہ عوامی خدشات دور کرے تاکہ یہ مسائل عالمی سیاست کا شکار نہ ہوں۔
دوسری جانب دیا میر بھاشا ڈیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے احتجاج سے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ اور قومی نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ایک خصوصی پیکج کے تحت 4102 میں سے 3826 خاندانوں کو ادائیگیاں کی جا چکی ہیں جب کہ باقی درخواستوں کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔ ڈیم کےتعمیراتی کام کی زد میں آنے والی زمین، گھروں اور دیگر املاک کا معاوضہ ادا کیا جا چکا ہے۔ مقامی افراد تاحال انہی گھروں میں مقیم ہیں اور اپنے کاروبار بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ڈیم کے لیے درکار 91 فی صد زمین کی خریداری مکمل ہو چکی ہے جب کہ باقی 9 فی صد زمین کے حصول کے لیے قانونی کارروائی جاری ہے۔
دیا میر بھاشا ڈیم کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ متاثرین کی آبادکاری کے لیے چلاس میں ماڈل ویلیج قائم کیا گیا ہے جہاں جلد ہی متاثرین کو پلاٹ فراہم کیے جائیں گے۔
ان کے بقول دیا میر بھاشا ڈیم منصوبہ 2028 تک مکمل ہونے کی توقع ہے جس کے بعد اس سے پیدا ہونے والی 4500 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔
تاہم مقامی صحافی محمد قاسم کہتے ہیں کہ مظاہرین کا اصرار ہے کہ ڈیم کی شروعات کے دنوں میں مقامی افراد کے ساتھ جو وعدے ہوئے تھے ان کی نوعیت وقت کے ساتھ تبدیل ہو چکی ہے۔
ان کے بقول پہلے سروے کے مطابق اگر حکومتی اعداد و شمار میں چار ہزار کے قریب خاندان بنتے تھے اب 10 سال بعد شادی بیاہ اور آبادی میں اضافے کے باعث ان خاندانوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ایسے میں خاندانوں کی یہ تعداد لگ بھگ سات ہزار ہے۔