رسائی کے لنکس

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین سے 'ناروا سلوک' کی شکایات؛ 'واپس بھیجا گیا تو زندگی کو خطرہ ہو گا'


  • دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان اسلام آباد میں مقیم افغان باشندوں کے لیے اپنے وطن واپس جانے کے حالات کو آسان بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ان کی واپسی ایک پرامن اور محفوظ طریقے سے ممکن ہو سکے۔
  • محمد ظاہر اسلام آباد میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اپنے خاندان کے 16افراد کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں جہاں وہ تیسرے ملک میں سیٹل ہونے کے منتظر ہیں۔
  • محمد ظاہر کے مطابق ان کی اپنی فیملی پانچ افراد پر مشتمل ہے۔ لیکن ان کی بیوہ بہنیں اور ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جن کے شوہر گزشتہ 20 برسوں کی خون ریز جنگ میں طالبان کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
  • میمونہ خانم کا کہنا ہے کہ شروع میں پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کو ایک سال یا چھ ماہ کا ویزہ فراہم کرتی تھی۔ لیکن اب ویزے کی تجدید صرف ایک ماہ کے لیے کی جاتی ہے جس کی میعاد پلک جھپکتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔

پشاور -- "میں افغانستان کے انٹیلی جینس ڈپارٹمنٹ میں کام کیا کرتا تھا۔ اسی طرح میرے دوسرے بھائی افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ کام کرتے تھے۔"

"میں یہاں پاکستان صرف اور صرف اپنے اور اپنے خاندان والوں کی جان بچانے کی غرض سے آیا ہوں۔ اگر زبردستی واپس بھیجا جاتا ہے تو میری زندگی کسی بھی طور خطرے سے خالی نہیں ہو گی۔ـ"

یہ کہنا ہے افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے محمد ظاہر کا جو گزشتہ تین سال سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔

محمد ظاہر کے یہ خدشات اس وقت سامنے آئے ہیں جب گزشتہ روز اسلام آباد میں قائم افغان سفارت خانے نے ایک بیان جاری کیا جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اسلام آباد میں مقیم افغان باشندوں کو پولیس گرفتار اور ہراساں کر رہی ہے۔

افغان سفارت خانے نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل افغان باشندوں کے لیے مزید مشکلات اور خطرات کا باعث بن رہا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اس پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کی وطن واپسی کے عمل میں کسی کے ساتھ بھی بدسلوکی نہیں کر رہا۔

دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان اسلام آباد میں مقیم افغان باشندوں کے لیے اپنے وطن واپس جانے کے حالات کو آسان بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ان کی واپسی ایک پرامن اور محفوظ طریقے سے ممکن ہو سکے۔

محمد ظاہر اسلام آباد میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اپنے خاندان کے 16افراد کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں جہاں وہ تیسرے ملک میں سیٹل ہونے کے منتظر ہیں۔

محمد ظاہر کے مطابق ان کی اپنی فیملی پانچ افراد پر مشتمل ہے۔ لیکن ان کی بیوہ بہنیں اور ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جن کے شوہر گزشتہ 20 برسوں کی خون ریز جنگ میں طالبان کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

محمد ظاہر اور ان کے خاندان کے لیے زندگی کی یہ مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں اور وہ اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے کسی بھی ممکنہ حل کی تلاش میں ہیں۔

یہ کہانی صرف محمد ظاہر تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں مقیم ہر افغان مہاجر کی ہے جو یہاں پناہ گزین ہے۔

ان مہاجرین کی مشکلات ایک جیسی ہی ہیں اور یہ غیر یقینی مستقبل اور وطن واپس جانے کے خوف سے دوچار ہیں۔

'اگر زبردستی واپس بھیجا گیا تو زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے'

میمونہ خانم (فرضی نام) اپنے دو بچوں کے ہمراہ دو سال قبل پاکستان آئیں تھیں۔ افغانستان میں وہ انسانی حقوق کی کارکن تھیں اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد ایک سال تک وہاں رہ کر حالات کا جائزہ لیا۔ لیکن جب افغانستان میں زندگی گزارنا مزید ممکن نہ رہا تو انہوں نے پاکستان منتقلی کو ترجیح دی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے میمونہ خانم نے بتایا کہ وہ تاحال ویزے کے تحت پاکستان میں رہ رہی ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں انہوں نے اپنے ویزے کی تجدید کے لیے درخواست دی تھی۔ لیکن شام کے وقت پولیس بھاری نفری کے ساتھ ان کے گھر پہنچی اور انہیں بچوں سمیت تحویل میں لے لیا گیا۔

ان کے مطابق انہوں نے بہت منت سماجت کی کہ ان کے شوہر کو لے جایا جائے۔ لیکن بچوں سمیت تحویل میں لینے سے بچوں کی صحت پر شدید اثرات پڑیں گے۔ تاہم پولیس نے ان کی ایک نہ سنی اور تمام افراد کو گاڑی میں ڈال کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے حاجی کیمپ لے جایا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ وہاں ان کے ڈی پورٹ کرنے کے حوالے سے کاغذی کارروائی شروع کی گئی، تاہم ایک افسر کو بتایا گیا کہ ویزے کے لیے درخواست دی جا چکی ہے اور ایک یا دو دن میں ویزہ مل جائے گا جس پر انہیں عارضی طور پر گھر واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔

میمونہ خانم کا کہنا ہے کہ شروع میں پاکستانی حکومت افغان مہاجرین کو ایک سال یا چھ ماہ کا ویزہ فراہم کرتی تھی۔ لیکن اب ویزے کی تجدید صرف ایک ماہ کے لیے کی جاتی ہے جس کی میعاد پلک جھپکتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔

ان کے مطابق اگر پاکستانی حکومت انہیں زبردستی افغانستان واپس بھیجتی ہے تو نہ صرف یہ کہ ان کی اپنی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں بلکہ ان کے بچوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے سبب وہ ناخواندہ اور پریشان کن زندگی گزارنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

میمونہ خانم نے بتایا کہ ان کے لیے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر سب سے بڑی ہے اور وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے بچے وہ مشکلات برداشت کریں جن کا سامنا انہوں نے خود کیا۔

بدھ کو افغان سفارت خانے نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ افغان حکام نے مہاجرین کے معاملے کو سنجیدگی سے ایڈریس کرنے کے لیے متعدد پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ تاہم انہیں افغان مہاجرین کو تحویل میں لینے اور ان کی بے دخلی کے حوالے سے کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی۔

اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان نے کہا کہ نومبر 2023 میں جب پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ان کے وطن واپس بھیجنے کا اعلان کیا تھا تو اس پر طالبان حکومت نے سخت ردِعمل ظاہر کیا تھا۔

ان کے مطابق طالبان حکومت اس بات کے لیے تیار نہیں تھی کہ اتنی بڑی تعداد میں واپس آنے والے باشندوں کا بوجھ اُٹھا سکے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طاہرخان نے مزید کہا کہ افغان سفارت خانے کا یہ دعویٰ درست ہے کہ پاکستانی حکام نے افغان مہاجرین کی بے دخلی کے معاملے پر باضابطہ طور پر انہیں آگاہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی مبہم ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کی وجہ سے افغان پناہ گزین اس صورتِ حال کا شکار ہو رہے ہیں۔

طاہر خان کے بقول بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کے حوالے سے جو پالیسیاں بن رہی ہیں اس میں دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا اور یہ تمام فیصلے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کیے جا رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ تھا وزارتِ ریاستی و سرحدی اُمور اور افغان افغان کمشنریٹ جیسے ادارے جو ان معاملات کی حساسیت سے آگاہ ہیں، ان کی سفارشات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

طاہر خان کا کہنا تھا کہ اگر تمام معاملات کو سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے گا تو یہ مزید پیچیدگیاں اور مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ اس کے بجائے انہیں ایک زیادہ جامع اور انسانی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بار بار انتباہ کے باوجود افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کی کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔

طالبان حکومت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے۔

'یہ طالبان حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے'

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے بے دخلی کا عمل طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے ایک حربے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان طالبان پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرے اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکے۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارت، ویزہ اور افغان مہاجرین کو بطور ٹول استعمال کیا ہے تاکہ افغان حکومتوں پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت کی "ڈونٹ کیئر" پالیسی مؤثر ثابت ہو رہی ہے کیوں کہ وہ ایک روایتی حکومت نہیں ہیں۔

سمیع یوسفزئی کے مطابق طالبان کی پالیسی بہت زیادہ جارحانہ ہے اور وہ مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کا ارادہ نہیں رکھتے۔

سمیع یوسفزئی کے بقول افغان عوام پہلے ہی پاکستان مخالف سوچ اور جذبات رکھتے ہیں۔ جو تھوڑی بہت نرمی پاکستان میں بسنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کی صورت میں تھی، اب خدشہ ہے کہ وہ بھی جلد ہی منفی سوچ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ یہ تمام مہاجرین اچھی یادوں اور مثبت تاثرات کے ساتھ واپس نہیں جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان کی افغان مہاجرین کی زبردستی بے دخلی کی پالیسی پاکستان کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ یہ نہ صرف افغان مہاجرین بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی حیثیت کو متاثر کرے گی۔

سمیع یوسفزئی نے خبردار کیا کہ اس پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف منفی جذبات اور خیالات میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو ملک کی بین الاقوامی حیثیت کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستانی حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان شہریوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن کی دیکھ بھال پہلے سے ہی مالی مشکلات سے دوچار پاکستان کے لیے مشکل ہے۔

پاکستانی حکام کہتے رہے ہیں کہ افغان جنگ کے دوران لاکھوں افغان باشندے پہلے سے ہی پاکستان میں موجود ہیں، لہذٰا غیر قانونی طور پر پاکستان آنے والے افغان شہریوں کو اُن کے وطن واپس بھجوا دیا جائے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG