رسائی کے لنکس

سعودی ولی عہد: جنگوں کے خاتمے کی ٹرمپ کی کوششوں میں اہم ساجھے دار


سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان،فائل فوٹو
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان،فائل فوٹو
  • امریکہ اورروس کے اعلی عہدے داروں نے یوکرین میں جنگ کے خاتمہ کی حکمت عملی پر گفتگو کےلیےمنگل کو ریاض سعودی عرب میں اپنا اجلاس کیا تھا۔
  • چند روز بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مصر ، اردن ،قطر اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس منعقد کررہے ہیں۔
  • وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کی تجویز پر عرب دنیا کے رد عمل پر بات چیت کریں گے۔
  • بدھ کے روز عالمی سرمایہ کار اور ٹیک ایگز یکٹیوز میامی فلوریڈا میں ایک کانفرنس میں اکٹھے ہو رہے ہیں جس کی میزبانی سعودی عرب کا، فیوچر انویسٹمنٹ انسٹی ٹیوٹ کررہا ہے۔

امریکہ اورروس کے اعلی عہدے داروں نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے پر گفتگو کےلیےمنگل کو ریاض سعودی عرب میں اپنا اجلاس ختم کیا ہے۔ اور اس کے بعدسعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مصر ، اردن ،قطر اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس کا انعقاد یں گے جس میں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے عزم پر عرب دنیا کے رد عمل پر بات چیت کریں گے۔

یہ دو الگ الگ اجلاس، ٹرمپ کی جانب سے یوکرین اور غزہ میں جنگوں کے خاتمے کے بارے میں انکی انتخابی مہم کے وعدے کی تکمیل کی کوششوں میں سعودی ولی عہد کے بڑھتے ہوئے کردار کے عکاس ہیں۔ منگل کےروز ٹرمپ نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ وہ لڑائی کو تیزی سے ختم کریں گے۔

فلوریڈا میں اپنی مار ۔اے۔لاگو رہائش گاہ سےبات کرتے ہوئے صدر نے یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے اس تشویش کو مسترد کرتے ہوئے کہ کیف کو ریاض کے اجلاس سےالگ کر دیا گیا ہے،کہا ، ‘‘ میرے پاس اس جنگ کو ختم کرنے کی طاقت ہے‘‘۔

ایک نامہ نگار کے سوال کے جواب میں انہوں نے زیلنسکی کے بارے میں کہا کہ وہ وہاں تین سال سے ہیں، انہیں اسے ختم کردینا چاہئےتھا ۔ انہوں نے مزید کہا ، "میں یوکرین کے لئے ایک ایسا معاہدہ کر سکتا تھا جو انہیں لگ بھگ پوری زمین دے دیتا۔‘‘

ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ زمین کا کونسا حصہ یوکرین کے پاس رہتا۔ روس نے یوکرین پر فروری 2022 میں اپنا بھر پور حملہ شروع کیا تھا اور اب اس کا ڈونیسٹک ، کھیرسن ، لوشانک اور زپوریژیا کے علاقوں کے کچھ حصوں پر کنٹرول ہے اور خار کیو اور میکولائیف پر لڑائی جاری ہے ۔ روس نے 2014 میں کرائیمیا کا االحاق کیا تھا۔

غزہ منصوبے پر عرب رد عمل

اس ہفتے ، بعد میں شہزادہ سلمان، مصر ، قطراور متحدہ عرب امارارت کے رہنماؤں کو اکٹھا کریں گے تاکہ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے اور فلسطینیوں کو غزہ سے پڑوسی ملکوں میں منتقل کر کے اسے مشرق وسطیٰ میں ایک تفریحی ساحلی مقام بنانے کے عزم پر عرب رد عمل پر بات چیت کی جائے۔

ٹرمپ کےمنصوبے نے علاقائی رہنماؤں کو برہم کر دیا ہے جو اب ایک جوابی منصوبہ سامنے لانے پر زور دے رہے ہیں جس کے بارے میں وہ اگلے ہفتے قاہرہ میں عرب لیگ کے ایک وسیع تر اجتماع سے قبل ریاض میں گفتگو کریں گے۔

مصری قیادت کے ایک منصوبے میں ایک عرب تجویز پر غور کیا جا رہا ہے جس میں غزہ پر حماس کے بغیر حکومت کرنے کے لیے ایک فلسطینی قومی کمیٹی کی تشکیل اور اس کی تعمیر نو کےلیے عرب اور خلیج کی ریاستوں سے تین سال کی مدت میں 20 ارب ڈالر تک جمع کرنا شامل ہے ۔

جان ہاپکنز اسکول آف ایڈوانسڈ انٹر نیشنل اسٹڈیز میں مشرق وسطیٰ کے امور سے متعلق سینئیر تجزیہ کار لارا بلومنفیلڈ کہتی ہیں کہ اب جب سعودی عرب ایک بڑا سفارتی پلیٹ فارم بنا رہا ہے ، شہزادہ محمد رد عمل کی بجائے عمل کے لئے اور کسی موقف پر اڑ جانے کے بجائے دانائی سے کام لینے کا مشورہ دینے کےلیے متحرک ہیں۔

بلومینفیلڈ نے وی او اے کو بتایا کہ شہزادہ اپنے موقف کے ساتھ ایک ایسی زبان شامل کر سکتے ہیں جس پر ٹرمپ بات کرنا پسند کرتے ہیں یعنی سرمایہ کاری۔

بدھ کے روز عالمی سرمایہ کار اور ٹیک ایگزیکٹیوز میامی فلوریڈا میں ایک کانفرنس میں اکٹھے ہو رہے ہیں جس کی میزبانی سعودی عرب کا، فیوچر انویسٹمنٹ انیشئیٹیو انسٹی ٹیوٹ کررہا ہے جو سلمان کے زیر قیادت سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کا ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ ٹرمپ پروگرام کے مطابق اس تقریب سے خطاب کریں گے۔

بلومنفیلڈ نےمزید کہا، ٹرمپ جن کی نگاہ نوبیل امن انعام پر ہے ایک ایسے امن ساز ہیں جوعجلت میں ہیں، شہزادہ سلمان ایک ڈیل میکر ہیں جنکی نظروں کا محور 2030 میں ایک بڑی اقتصادی تبدیلی کے لیے سعودی وژن ہے۔

شہزادہ محمد پاور بروکر

یوکرین اور غزہ پر مرکوز اپنی کوششوں کے ساتھ، سعودی عرب کے 39 سالہ فی الواقع رہنما، اقتدار کے ایک ثالث کے طورپر ابھرے ہیں جن پر ٹرمپ خارجہ پالیسی کے اپنے مقاصد کےلیے انحصار کرر ہے ہیں۔

شہزادہ محمد نے یہ مقام جزوی طور پر ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران قائم کیےگئے اپنے قریبی تعلقات سے، ٹرمپ کے ساتھ اس وقت کاروبار بر قرار رکھ کر جب وہ صدر کے منصب پر نہیں تھے ، اور گزشتہ ماہ صدر کی حلف برداری کے بعد سے ان کے ساتھ تعلقات کو توسیع دے کر حاصل کیا ہے ۔

سال 2017 میں ٹرمپ کا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا تھا ، جہاں انہوں نے متعدد معاہدوں پر دستخط کئے تھے، جن میں اسلحے کا110 ارب ڈالر کا وہ معاہدہ شامل تھا ، جو دس سال میں 350 ارب ڈالر تک پھیل سکتا تھا۔

ٹرمپ نے دورے کی کاروباری نوعیت کے بارے میں کھلم کھلا بات کرتے ہوئے جنوری میں اپنی دوسری حلف برداری کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ انہوں نے ریاض کو اپنے پہلے دورے کے لیے اس لیے چنا کہ ،’’ وہ ہماری 450 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات خریدنے پر تیار ہو گئے ہیں ‘‘۔

اور اس کے چند روز بعد شہزادے نے ایک فون کال کے دوران ٹرمپ کو بتایا کہ وہ اگلے چار برس میں امریکہ میں 600 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

اگرچہ شہزادہ محمد نے ٹرمپ کے ساتھ اپنے سیاسی اور کاروباری تعلقات کو فروغ دیا ہے ، تاہم انہو ں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد انہیں الگ تھلگ کرنے کی بائیڈن کی کوششوں کے دوران روسی رہنما کے ساتھ تعلق کو بھی برقرار رکھا ہے ۔

سعودی عرب میں سیاست اور اقتصادیات کے ماہر اور مصنف ، علی شہابی کا کہنا ہے ،’’ ولی عہدسلمان گزشتہ پانچ برس سے یہ جواز پیش کر رہے ہیں کہ یہ بات امریکہ کے مفاد میں ہے کہ وہ سعودی عرب روس اور چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات بر قرر رکھے۔

اس کی ایک عملی وجہ بھی ہے۔سعودی مملکت نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اس قانون پر دستخط نہیں کیے ہیں، جس نے 2023 میں پوٹن کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG