ویب ڈیسک — امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق منصوبے کے متبادل پر بات چیت کے لیے عرب رہنماؤں کا اجلاس آج مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہوگا۔
غزہ کی تعمیرِ نو پر عرب لیگ کا اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب کہ ایک روز قبل اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے اسے "دور اندیشی اور جدت پسندی" پر مبنی قرار دیا تھا۔
فلسطینیوں اور عرب ممالک کے علاوہ اسرائیل اور امریکہ کے بیش تر اتحادیوں نے بھی صدر ٹرمپ کی تجویز کی مذمت کی ہے اور غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کیا ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے خطے میں کہیں اور منتقل کرنے اور امریکہ کی جانب سے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے اور تعمیرِ نو کا منصوبہ پیش کیا تھا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان لگ بھگ 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ سے غزہ بڑی حد تک تباہ ہو چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق غزہ کی تعمیرِ نو پر 53 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آ سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عرب لیگ میں موجود ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پیر کو عرب وزرائے خارجہ نے ایک بند کمرہ مشاورتی اجلاس میں فلسطینیوں کو بے دخل کیے بغیر غزہ کی تعمیرِ نو کے منصوبے پر بات چیت کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ "منگل کو ہونے والے عرب رہنماؤں کے اجلاس میں منظوری کے لیے پیش ہونے کا امکان ہے۔"
اجلاس میں کئی عرب ممالک کے سربراہوں کی شرکت متوقع ہے جب کہ بعض ممالک کے وزرائے خارجہ یا دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوں گے۔
عرب لیگ کے شیئر کردہ شیڈول کے مطابق مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور بحرین کے شاہ حمد بن عیسیٰ ال خلیفہ کی جانب سے افتتاحی خطاب متوقع ہے۔
اُدھر پیر کو پارلیمنٹ سے خطاب میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کے منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "یہ غزہ کے رہائشیوں کو حقیقی انتخاب دینے کا وقت ہے۔یہ وقت ہے کہ انہیں جانے کی آزادی دی جائے۔"
نیتن یاہو کے اتحاد کے اراکین نے غزہ کو اس کے رہائشیوں سے خالی کرانے کے خیال کی تائید کی ہے۔
قاہرہ میں ہونے والا اجلاس ایسے موقعے پر منعقد ہو رہا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا مستقبل غیر واضح ہے۔ فریقین میں 19 جنوری سے جنگ بندی شروع ہوئی تھی جس کا چھ ہفتوں پر مشتمل پہلا مرحلہ ہفتے کو ختم ہو گیا ہے۔
پہلے مرحلے کے دوران اسرائیلی یرغمالوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی تھی اور غزہ میں امداد کی فراہمی میں بھی بہتری آئی تھی۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی اپریل کے وسط تک توسیع کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن حماس کا اصرار ہے کہ دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور اس سے جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔
نیتن یاہو نے پیر کو حماس کو خبر دار کیا کہ اگر عسکریت پسندوں نے یرغمال بنائے گئے درجنوں افراد کو رہا نہ کیا تو اس کے ناقابلِ تصور نتائج ہوں گے۔
حماس کے ایک سینئر عہدے دار اسامہ حمدان نے اسرائیل پر جنگ بندی کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی توسیع کے لیے دباؤ کو "دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات میں داخل ہونے سے بچنے کی کھلی کوشش" قرار دیا ہے۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے ساتھ ہی نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل غزہ کے لیے "تمام سامان اور سپلائیز کی آمد" کو روک رہا ہے اور اگر حماس توسیع کو قبول نہیں کرتی تو اسے "دیگر نتائج" کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیل کے اس اقدام پر جنگ بندی کے اہم ثالث مصر اور قطر کے ساتھ ساتھ، خطے کے دیگر ممالک، اقوامِ متحدہ اور کچھ اسرائیلی اتحادیوں نے بھی تنقید کی ہے۔
غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ حماس کو امریکہ اور متعدد مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل کی شروع کی گئی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 48 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس تعداد میں ہلاک ہونے والے 17 ہزار عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
اس خبر میں شامل معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔
فورم