|
مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیاں اپنے ماڈلز کو تربیت دینے کے لیے، مختلف مصنفین، آرٹسٹوں اور فنکاروں کی تخلیقات استعمال کرتی ہیں اور ان تخلیق کاروں کو اس کا کوئی معاوضہ یا کریڈٹ نہیں دیا جاتا۔ لیکن بعض اے آئی کمپنیاں ان تخلیق کاروں کو اس طریقہ کار کی مخالفت کرنے کی بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دے رہی ہیں۔
پرانے زمانے کے فنکاروں نے جب کوئی فن پارہ تخلیق کیا ہوگا تو ہو سکتا ہے ان کے ذہن میں، (intellectual property rights) کا جنہیں املاکِ دانش کے حقوق بھی کہا جاتا ہے، کوئی تصور نہ ہو۔
لیکن ان دنوں جنریٹو اے آئی کے آغاز نے بعض فنکاروں کو اس تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز میں ان کا کام ان کے علم میں لائے بغیر اور ان کی اجازت کے بغیر استعمال کیا جا رہا ہے۔
میشا کوف مین، فائیور کے چیف ایگزیکٹو ہیں جو ایک ایسی کثیر قومی آن لائین مارکیٹ پلیس ہے جو مفت فری لانس سروسز فراہم کرتی ہے۔
وہ اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج مصنوعی ذہانت جس انداز میں تشکیل دی گئی ہے، اس میں ماڈلز کی تربیت میں، کسی بھی تخلیق کار کی ہر تخلیق کو استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے بعد جب نتائج حاصل کیے جاتے ہیں تو ان تخلیق کاروں کو اس کا نہ تو کوئی معاوضہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی منافع حاسل کرنے کا کوئی موقع ملتا ہے۔"
فائیور نے حال ہی میں نیویارک میں ایک تقریب منعقد کی جس میں ایسے طریقے متعارف کروائے گئے جو کارکنوں کو یہ سہولت مہیا کرتے ہیں کہ وہ اپنے اے آئی ماڈلز خود بنائیں اور پہلے سے موجود متعلقہ مواد انہیں فیڈ کریں۔
میشا کوف کا کہنا ہے کہ اس سےمصنف، آرٹسٹ اور دیگر تخلیق کار ایسے ماڈل حاصل کر سکتے ہیں جو ان کے انداز اور وضح قطع سے مشابہت رکھتے ہوں اور پھر وہ انہیں اپنے گاہکوں کو پیش کر سکتے ہیں۔
بعض فری لانسر بہت پر امید ہیں۔جن میں سے ایک زیکری وٹمور ہیں ، ان کا کہنا ہے، "میں محسوس کرتا ہوں کہ اس سے آپ کو ایک بہتر ٹول حاصل ہوتا ہے، اپنے کام پر، اپنی پسندیدہ چیز پر اور اسے مارکیٹ میں لانے پر بہتر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔"
ڈی سمتھ بھی فائیور میں وائس اوور آرٹسٹ یعنی صداکار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اے آئی جنریٹڈ وائس اوور سے انہیں زیادہ کلائنٹس کو خدمات فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے جیسے کہ چھوٹے کاروبار ہیں جو ہو سکتا ہےمجھے معاوضہ ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔
ان کا کہنا ہے ایسے صارفین بھی ہیں جنہیں ضروری نہیں کہ کوئی بالکل درست، خوبصورت اور خوبصورت لب ولہجے والی آواز درکار ہو۔ وہ قدرے سادہ آواز چاہتے ہوں۔
میشا کوف مین کہتے ہیں کہ ہم جو کرر ہے ہیں وہ اے آئی ڈیزائن تک پہنچنے کا ایک انتہائی جدید طریقہ متعارف کروا نا ہے، جس میں تخلیق کار کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔
فائیور، پیشہ ور تخلیق کاروں اور اے آئی کے درمیان کاپی رائٹ کے مسائل سے نمٹنے والی واحد کمپنی نہیں ہے
ایک اور کمپنی کری ایٹڈ بائی ہیومینز(Created by Humans)کے سی ای او ٹرپ ایڈلر ہیں یہ چھوٹی سی کمپنی شائع شدہ مواد کے مصنفین اور اے آئی کے درمیان معاملات طے کرنے کا کام کرتی ہے۔
وہ اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فی الوقت تخلیق کاروں اور اے آئی کمپنیوں کے درمیان کافی تنازعہ پایا جاتا ہے۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں کو لائسنس دینے اور باہم مربوط کرنے کے لیے کوئی سادہ طریقہ موجود نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا،ہم مصنوعی ذہانت کے حقوق کی ایک ایسی مارکیٹ تشکیل دے رہے ہیں جو تخلیق کاروں کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ اپنے مواد کو لائسنس کریں اور اور اپنے حقوق اے آئی کمپنیوں کو دیں۔ اس میں آپ دستخط کرتے ہیں اور اپنی شناخت کی تصدیق کرتے ہیں۔
ایڈلر کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کا طریقہ بہت آسان ہے، یعنی یہ کہ آپ اپنی کتابوں کی ملکیت ظاہر کرتے ہیں، لائسنسنگ کے آپشنز کا انتخاب کرتے ہیں ۔ صرف چند منٹ کا کام ہے اور "آپ اپنی کتابیں اے آئی کے ساتھ لائسنس کر سکتے ہیں۔"ان کا خیال ہےاس طرح اے آئی سسٹمز کو تربیت دینے کے لیے کوئی کتابیں استعمال کرنے سے پہلے مصنف سے اس کی اجازت لینا ہوگی۔
ایڈ لر کہتے ہیں، "مصنوعی ذہانت کے اس دور میں یہ تخلیق کاروں اور اے آئی کمپنیوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا معاملہ ہے۔"
وائس آف امریکہ کی ٹینا ٹرنہ کی رپورٹ
فورم