رسائی کے لنکس

دنیا کے ایک چوتھائی ملکوں میں خواتین کے حقوق کی صورت حال کمزور ہوئی ہے: اقوام متحدہ


چاڈ میں دو بچوں کی بائیس سالہ ماں جو اپنی زندگی میں پیش آنے والی زیادتیوں پر بات کررہی ہے، فائل فوٹو
چاڈ میں دو بچوں کی بائیس سالہ ماں جو اپنی زندگی میں پیش آنے والی زیادتیوں پر بات کررہی ہے، فائل فوٹو
  • گزشتہ سال دنیا بھر کے ایک چوتھائی ملکوں میں آب و ہوا کی تبدیلی سے لےکر جمہوریت کے انحطاط جیسے عوامل کے باعث خواتین کے حقوق کی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ۔
  • دنیا بھر کی پارلیمانوں میں خواتین کی نمائندگی 1995 کے بعد سے دو گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی پارلیمنٹ کے تین چوتھائی ارکان مرد ہی ہوتے ہیں۔
  • 25 اور 54 سال کی عمر کے درمیان 63 فی صد خواتین ملازمت کرتی ہیں جب کہ عمر کے اسی حصے کے مردوں میں ملازمت کرنے کی شرح 92 فی صد ہے۔
  • یورپ اور وسطی ایشیا کے 12 ممالک میں کم از کم 53 فی صد خواتین کو صنفی بنیاد پر آن لائن تشدد کی ایک یا زیادہ ا اقسام کا سامنا کرنا پڑا۔

اقوام متحدہ کے خواتین کے امور سےمتعلق ادارے کی جمعرات کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر کے ایک چوتھائی ملکوں میں آب و ہوا کی تبدیلی سے لےکر جمہوریت کے انحطاط جیسے عوامل کے باعث خواتین کے حقوق کی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جمہوری اداروں کا کمزور ہونا اورصنفی مساوات پر منفی ردعمل ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حقوق مخالف عناصر خواتین کے حقوق سے منسلک اہم مسائل پر دیرینہ اتفاق رائے کو فعال طور پر کھوکھلا کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں 1995 میں خواتین پر عالمی کانفرنس کی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ تقریباً ایک چوتھائی ملکوں نے کہا ہے کہ صنفی مساوات پر آنے والا ردعمل بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن (بیجنگ کانفرنس کی سفارشات) کے نفاذ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کانفرنس کے انعقاد کے بعد سے 30 برسوں میں اس کی سفارشات پر پیش رفت ملی جلی رہی ہے۔

دنیا بھر کی پارلیمانوں میں خواتین کی نمائندگی 1995 کے بعد سے دو گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی پارلیمنٹ کے تین چوتھائی ارکان مرد ہی ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2010 اور 2023 کے دوران سماجی تحفظ کے فوائد حاصل کرنے والی عورتوں کی تعداد میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے جب کہ اب بھی دو ارب عورتیں اور لڑکیاں ایسی جگہوں پر رہتی ہیں جہاں انہیں سماجی تحفظات میسر نہیں ہیں۔

ملازمتوں میں صنف کے حوالے سے جمود طاری ہے ۔ جس کی وضاحت ان اعداد و شمار سے ہوتی ہے کہ 25 اور 54 سال کی عمر کے درمیان 63 فی صد خواتین ملازمت کرتی ہیں جب کہ عمر کے اسی حصے کے مردوں میں ملازمت کرنے کی شرح 92 فی صد ہے۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں عالمی وبا کوویڈ۔19، عالمی تنازعات، آب و ہوا کی تبدیلی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز ، مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت(AI) سمیت تمام کو صنفی مساوات کے لیے نئے امکانی خطرات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران تنازعات سے منسلک جنسی تشدد میں 50 فی صد اضافہ ہوا ہے جس کا نشانہ بننے والوں میں 95 فی صد بچے اور نوجوان لڑکیاں ہیں۔

رپورٹ میں جنگوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 2023 میں 6 کروڑ 12 لاکھ خواتین ایسی جگہوں پر رہ رہیں تھیں جو مسلح لڑائیوں کے 50 کلومیٹر کے دائرے کے اندر تھے۔ یہ تعداد 2010 کے مقابلے میں 54 فی صد زیادہ ہے۔

رپورٹ میں خواتین کے خلاف تشدد کی ایک نئی قسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یورپ اور وسطی ایشیا کے 12 ممالک میں کم از کم 53 فی صد خواتین کو صنفی بنیاد پر آن لائن تشدد کی ایک یا زیادہ ا اقسام کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد خطرناک حد تک جاری رہتا ہے اور زندگی بھر کے دوران، تقریباً ہر تین میں سے ایک عورت کسی قریبی ساتھی کے ذریعے جسمانی یا جنسی تشدد یا کسی غیر شخص کے ہاتھوں جنسی تشدد کانشانہ بنتی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں صنفی عدم مساوات پر قابو پانے کے لیے ایک کثیر الجہتی لائحہ عمل مرتب کیا گیا ہے جس میں مصنوعی ذہانت جیسی نئی ٹیکنالوجیز تک مساوی رسائی کو فروغ دینا، آب و ہوا کے حوالے سے انصاف پر مبنی اقدامات، غربت سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری، عوامی معاملات میں شرکت میں اضافہ اور صنفی تشدد کے خلاف جنگ شامل ہیں۔

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG