رسائی کے لنکس

زمین کی طرف بڑھتے سیارچے سے کیسے بچاجا سکتا ہے، امریکی سائنسدان کیا کہتے ہیں؟


امریکی خلائی ادارے ناسا کی طرف سے اس سال 31 جنوری کو فراہم کردہ ایسٹرائڈ 2024 وائے آر فور کی تصویر ، فوٹو اے ایف پی ۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کی طرف سے اس سال 31 جنوری کو فراہم کردہ ایسٹرائڈ 2024 وائے آر فور کی تصویر ، فوٹو اے ایف پی ۔

  • امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کے مطابق ایک سشہابیہ جسے " 2024 YR4" کا نام دیا گیا ہے، اسکے زمین سے ٹکرانے کے امکانات اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔
  • اس سے قبل اس کے زمین سے ٹکراجانے کے امکان کے بارے میں خاصی سنسنی پھیلی ہوئی تھی۔
  • "ایسا نہیں ہے کہ اس ایسٹرائیڈ کا زمین کے کسی حصے پر آ گرنا ماضی کے اس تباہ کن واقعہ کی طرح ہوگا جب ایک شہابِ ثاقب کے ٹکرانے سے دنیا سے ڈائینو سار ختم ہوگئے تھے۔ لیکن ہمیں اس بارے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔"
  • سب سے زیادہ قابل عمل راہ یہ ہے کہ اس بات کے واضح ہونے پر کہ یہ چٹان واقعی زمین کے کسی حصے پر تیزی سے آگرے گی، اس کی سمت کو "ڈارٹ مشن" کے نام سے موسوم طریقے سے تبدیل کردیا جائے۔
  • بعض اوقات خلا میں اشیا اپنے مدار میں ایسے مقام پر پہنچتی ہیں جہاں سورج کی چکا چوند کر دینے والی روشنی کے درمیان آنے سے ان کا مشاہدہ یا انہیں ٹریک نہیں کیا جا سکتا۔

حال ہی میں لگ بھگ فٹ بال گراونڈ کے برابر سائز کے ایک سیارچے کے کچھ برسوں میں زمین کی جانب بڑھنے کی دریافت نے عوام کے ذہنوں میں سائنس فکشن فلموں جیسے تباہ کن مناظر ابھارے تھے۔اگرچہ اب ایسٹرائیڈ 2024 وائے آر فور" کے زمین سے ٹکرانے کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن امریکی خلائی سائنسدان اس کے زمین پر ٹکرانے کے امکانات کو کم کرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین پیش گوئی کے مطابق سائنس دانوں نے دسمبر 2032 کو زمین تک پہنچنے والی اس خلائی چٹان کے ٹکرانے کے امکانات کو مزید کم کر دیا ہے۔ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کے مطابق اس چٹان کےجسے "ایسٹرائیڈ 2024 وائے آر فور" کا نام دیا گیا ہے، زمین سے ٹکرانے کے امکانات 0.28 فیصد ہیں۔

قبل ازیں، اس سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے امکان کو 2.6 فیصد بتایا گیا تھا۔ لیکن زمین پر اس چٹان کے ٹکرانے کے امکانات کم ہونے کے باوجود کینیڈی اسپیس سینٹر کے ایک سائنسدان نے حال ہی میں کہا کہ سائنسدان اس بات سے خوف میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ اس سے نمٹنے کی کوششوں کی وقت سے پہلے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

ایسٹرائیڈ کی رفتار کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ سال 2032 کے آخر میں 22 دسمبر کو تقریباً 38,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھے گا۔ تاہم، ناسا نے کہا ہے کہ اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات مزید کم ہو رہے ہیں۔


زمین کو نقصان سے بچانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟

ریاست الینوائے میں قائم نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے منسلک طبیعات اور فلکیات کے ماہر پروفیسر فرہاد زادے کہتے ہیں کہ "ایسا نہیں ہے کہ اس ایسٹرائیڈ کا زمین کے کسی حصے پر آ گرنا ماضی کے اس تباہ کن واقعہ کی طرح ہوگا جب ایک شہابِ ثاقب کے ٹکرانے سے دنیا سے ڈائینو سار ختم ہوگئے تھے۔ لیکن اگر اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں تو ہمیں اس بارے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔"

تاہم، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی سیارچے کو زمین کے عین اوپر تباہ کرنا کوئی محفوظ ترین آپشن نہیں لگتا۔

بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی چٹان کو تباہ کرنے سے ایک تو خلا میں اس کا ملبہ پھیلے گا اور دوسرا اس کے زمین پر گرنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔

آفت نما خلائی تودہ زمین کی جانب گامزن
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:56 0:00

واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں ماہر طبعیات و فلکیات پروفیسر ایرن گروہسکی کہتے ہیں کہ اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق ایسٹرائیڈ 2024 کا سائز کم از کم پچاس میٹر ہے جو کہ اگر چہ بہت بڑا نہیں لیکن اتنا کم بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ لہذا اسے خلا یا فضا میں تباہ کرنے سے کوئی زیادہ اچھے نتائج شاید نہ حاصل ہو سکیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے زیادہ قابل عمل راہ یہ ہے کہ اس بات کے واضح ہونے پر کہ یہ چٹان واقعی زمین کے کسی حصے پر تیزی سے آگرے گی، اس کی "ڈارٹ مشن" کے نام سے موسوم طریقے سے سمت کو تبدیل کردیا جائے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے 2022 میں ڈارٹ مشن یعنی'ڈبل ایسٹرائیڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ' کو استعمال کرتے ہوئے زمین سے تقریبا 70 لاکھ میل دور کامیابی سے خلا میں ایک سیارچے "ڈائیمورفوس" کو ایک اسپیس شپ سے تجرباتی طور پر ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں اس کا مدار تھوڑا سا تبدیل ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر گروہوسکی کہتے ہیں کہ اس طریقے کے تحت "کائینیٹک امپیکٹ" یعنی حرکت کرتے اسپیس کرافٹ کے اثرسے ایسے سیارچے کی سمت اور مدار کو تبدیل کرنا ایک ترجیحی طریقہ ہے۔ اس طریقے سے چٹان کا رخ زمین پر زیادہ نقصان ہونے والے مقام سے کسی اور طرف موڑا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر فرہاد زادے کہتے ہیں کہ اگر چہ سائنسدانوں نے بروقت ایسٹرائیڈ 2024 کا پتا چلا لیا ہے اس کی مستقبل کی سمت اور زمین کی جانب بڑھنے کے بارے میں میں حتمی تعین میں ابھی مزید مشاہدے اور اعداد شمار کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ عالمی تعاون سے 2013 میں "انٹرنیشنل ایسٹیرائیڈ وارننگ نیٹ ورک" کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد زمین سے ممکنہ طور پر آٹکرانے والی خلائی اشیاء کی نگرانی اور ٹریک کرنا ہے۔

درست سمت کا تعین اور سیارچے کا مشاہدہ

واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں ماہر طبعیات و فلکیات پروفیسر ایرن گروہوسکی
واشنگٹن کی امریکن یونیورسٹی میں ماہر طبعیات و فلکیات پروفیسر ایرن گروہوسکی

پروفیسر ایرن گروہوسکی کہتے ہیں کہ کسی بھی خطرناک سیارچے یا چٹان کے مدار یا سمت میں تبدیلی کی کارروائی سے قبل اس کی صحیح سمت، وقت اور اسپیڈ کا تعین درکار ہوتا ہے۔

ان کے مطابق خوش قسمتی سے اس وقت سائنسدان خلا میں کسی ایسے سیارچے کا اور اس کی رفتار کا مسلسل یا بہت دیر تک مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔

"اس وقت ہم خلا میں اشیا کو طویل عرصے تک مشاہدہ کر سکتے ہیں، ان کی سمت, سائز، شکل کا اندازہ کر سکتے ہیں جس سے ان کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں امپیکٹ یعنی اثرات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔"

لیکن، وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ بعض اوقات خلا میں اشیا اپنے مدار میں ایسے مقام پر پہنچتی ہیں جہاں سورج کی چکا چوند کر دینے والی روشنی کے درمیان آنے سے ان کا مشاہدہ یا انہیں ٹریک نہیں کیا جا سکتا۔

اس طرح کا ایک واقع 15 فروری 2013 کو پیش آیا تھا جب اچانک کسی پیش گوئی کے بغیر روس کے چیلیابنسک علاقے سے ایک شہاب ثاقب آٹکرایا تھاجس سے تقریباً 1,500 لوگ زخمی ہوگئے جبکہ عمارتوں کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔


سیارے سے بچاو کی کوشش میں اس کی ساخت کا تعین اہم ہوگا

ایسٹرائیڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پچھلے ایک سو سال میں زمین کی طرف بڑھنے والا خطرناک ترین سیارچہ ہو سکتا ہے۔ یہ روس کے چیلیابنسک علاقے پر آکر گرنے والے شہاب ثاقب سے سائز میں دو گنا بڑا ہے اور اس سے مقامی سطح پر تباہی بھی اسی تناسب سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

سیارچوں اور شہاب ثاقب یا خلا میں موجود چٹانوں یا بکھرے ٹکڑوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نظام شمسی کی تشکیل کے وقت ٹوٹ کر بکھر جانے والے چھوٹے حصے ہیں۔

ڈاکٹر فرہاد زادے کے مطابق اس بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنا بہت ضروری ہے کہ ایسٹرائیڈ کی ساخت کیا ہے۔

پروفیسر ایرن گروہوسکی کہتے ہیں کہ اس طرح کی خلائی چیزوں کے بارے میں ڈارٹ مشن کے لیے جاننا ضروری ہے کہ کیا یہ خالصتاً چٹان ہے، اس میں کون سی دھات زیادہ ہے، کیا یہ ملبے کا ڈھیر ہے یا ایک ہی قسم کے عناصرسے بنی کوئی چیز ہے۔

وہ کہتے ہیں، ان سب عوامل اور قابل غور عناصر کو سامنے رکھتے ہوئے اس سیارچے کے زمین کے ٹکرانے کے امکانات میں خاصی تبدیلی ہو سکتی ہے اور اگلے کچھ ہفتوں میں شاید اس بار ے ہمیں کچھ وضاحت حاصل ہو سکے۔

فورم

XS
SM
MD
LG