علی عمران وائس آف امریکہ اردو سے منسلک ہیں اور واشنگٹن ڈی سی سے رپورٹ کرتے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا حزب اللہ، جو سال 2006 کی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں فتح یاب ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، نئی قیادت کے ساتھ اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ اے آر سید کہتے ہیں کہ "ابھی تک تو تنظیم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہےاور اپنے وطن کا دفاع کرنے کا جذبہ بھی ہے۔"
پاکستان اکتوبر کے وسط میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا اور برکس فورم میں رکنیت کا بھی خواہاں ہیں لیکن ماہرین سوال اٹھا ر ہے ہیں کہ کیا ایسا ملک جو دنیا کے کئی اہم خطوں کے سنگم پر واقع ہے اپنی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوراندیش پالیسیاں اپنانے کے لیے تیار ہے۔
اسرائیل کے دو ہمسایہ ملک، غزہ سے متصل اور اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھنے والا مصر اور نصف سے زیادہ فلسطینی نژاد آبادی والا اردن اس وقت سلامتی کے نئے چیلنجز کے دھانے پر ہیں جہاں دونوں ملکوں کو اقتصادی، سیاسی اور امن و امان کے خطرات کا سامنا ہے۔
مبصرین کے مطابق، عسکریت پسند تنظیم حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے اسرائیل کے تباہ کن ملٹری ردعمل سے پیدا ہونے والی انسانی بحران اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے پیش نظر نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کی اعلی قیادت نے کوئی مضبوط سفارتی حمکت عملی نہیں اپنائی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اور ایرانی عسکری اقدامات نے مشرق وسطی میں جنگ کے خطرات کو اچانک کئی درجے بڑھا دیا ہے۔ مزید یہ کہ ایک سال سے جاری غزہ تنازعہ کے باعث بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کی جانب امریکی کردار کو بھی کئی حوالوں سے نمایاں کردیا ہے۔
بیرون ممالک سے پاکستانی نژاد طلباء کو مطالعاتی دوروں کے ذریعہ پاکستانی ثقافت، تاریخ اور تمدن سے روشناس کرایا جائے گا تاکہ تارکین وطن کی نئی نسل کے پاکستان سے روابط مضبوط کیے جا سکیں۔
بعض مبصرین اسے امریکہ کی طرف سے بڑے ہتھیاروں کے پھیلاو کی روک تھام کے لیے معمول کا اقدام قرار دیا ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہے۔
یوکرین اور غزہ میں جاری جنگوں کے تناظر میں جہاں بعض رہنما اقوام متحدہ کے کردار پر تنقید کر رہے ہیں وہیں ان تنازعات نے 15 رکنی سلامی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تھنک ٹینک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کے پاس دو طرفہ تجارت کو بحال کر کے تعلقات میں بہتری لانے کا موقع ہے۔
امریکہ نے ایران پر روس کو یوکرین جنگ میں استعمال کے لیے بیلسٹک میزائیل کی فراہمی کے الزام میں مزید پابندیوں کو اعلان کیا ہے جبکہ تہران اپنی اقتصادی ترقی کے لیے خطے میں تجارتی تعلقات بڑھانے کی کوششیں آگے بڑھا رہا ہے۔
پاکستان اور ایران میں ادھورے گیس پائپ لائن منصوبے پر تازہ ترین تنازعہ نے جہاں پاکستان کے توانائی کے بحران پر مزید توجہ مرکوز کی ہے وہیں بین الاقو امی امور کے ماہرین اسے اسلام آباد کے وسیع تر خارجہ پالیسی تناظر میں ایک اہم موقع کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے استعمال نے جہاں تعلیم، تحقیق، ترقی اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں تیز تر ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں وہیں تازہ ترین جائزوں کے مطابق مشینوں پر انحصار دنیا کے لیے نت نئے چیلنجز بھی پیدا کر رہا ہے۔
سوال یہ اٹھتا کہ اگر امریکہ اور دیگرمغربی ممالک افغانستان کو سفارتی طور پر تنہا چھوڑنے کی بجائے اس سے کسی صورت میں تعلقات بناتے تو کیا مذاکرات یا معاشی امداد کے ذریعہ طالبان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتے تھے؟
امریکی خلائی ادارے ناسا کا تیار کردہ دنیا کا پہلا ایسا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیج دیا گیا ہے جو زمین پر درجہ حرارت میں اضافہ کرنے والی گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کے ذرائع کی نشاندہی کرے گا۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے متصل ریاست ورجینیا کی وزارت تعلیم نے اسکولوں میں سیل فون کے استعمال پر پابندی کی تجویز دی ہے جس کے بعد نوجوان نسل کے لیے ٹیکنالوجی کا کردار توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
ایک روسی ماہر طبعیات نے کہا ہے کہ ماسکو کو یوکرین جنگ میں اپنے اہداف جلد حاصل کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس مشورے کے منظرعام پر آنے سے ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا روس واقعی اس جنگ میں مہلک ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
چین کے دیو ہیکل لیکن نرم و ملائم جلد کے دو پانڈا ریچھوں کی رواں سال امریکہ میں واپسی ہورہی ہے جسےدو عالمی طاقتوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں سفارت کاری کا اہم اظہار سمجھا جارہا ہے۔
واشنگٹن میں قائم شیکسپیئر فولجر لائبریری نے دنیا بھرسے اسکالرز کی تلاش کے بعد پاکستانی امریکی پروفیسر ڈاکٹر فرح کریم کوپر کو تاریخ کی پہلی غیر سفید فام ڈائریکٹر کے طور پر منتخب کیا ہے۔
ڈرامہ نویس ڈاکٹر اکبر احمد کہتے ہیں، " آج پہلے سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ بھارت اور پاکستان کو یاد کرایا جائے کہ ان کے بانی رہنما برطانوی تسلط سے 1947 میں آزادی سے قبل تقسیم کے معاملے پر اختلافات کے باوجود عوا م کی بہتری، اور کمیونیٹیز کے درمیان ہم آہنگی اور امن چاہتے تھے۔"
واشنگٹن میں پاکستانی امور پر کام کرنے والے ماہرین اس گفتگو کو کئی حوالوں سے اہم سمجھتے ہیں کیونکہ پاکستان اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جبکہ ملک میں دہشت گرد ی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مزید لوڈ کریں