رسائی کے لنکس

پاکستان ایران گیس پائپ لائن: اسلام آباد اس بحران کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرے گا یا نہیں؟


Europe Iran Sanctions
Europe Iran Sanctions

  • ایران اس پائپ لائن کے ذریعہ 24 کروڑ آبادی کے پاکستان کو روزانہ 750 ملین سے 1 بلین کیوبک فٹ تک قدرتی گیس فراہم کر سکتا ہے.
  • ہران نے اسلام آباد کو معاہدے کے طویل عرصہ سے التوا کا شکار ہونے پر پیرس کی عالمی ثالثی عدالت میں لے جانے کے ارادے سے متنبہ کیا ہے۔
  • پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اس تنازعہ کے قابل عمل حل کے لیے اسلام آباد تہران کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔
  • مہنگائی کا مسئلہ ہو یا دوسرے ملکوں پر بے جا انحصار کا معاملہ ہو، عدم استحکام ہو، ہر مسئلہ کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے توانائی کے بحران سے جڑا ہوا ہے.
  • سوال صرف توانائی کا نہیں ہے، یہ سوال پاکستان کے لیے ایک بڑا سوال ہے، اور وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اس بحران کو اپنے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرے گا یا نہیں.

پاکستان اور ایران میں ادھورے گیس پائپ لائن منصوبے پر تازہ ترین تنازعہ نے جہاں پاکستان کے توانائی کے بحران پر مزید توجہ مرکوز کی ہے وہیں بین الاقو امی امور کے ماہرین اسے اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں ایک اہم موقع کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔

تقریباً پندرہ سال قبل دو ہمسایہ ملکوں میں ہونے والے معاہدے کے تحت ایران نے اپنی سرزمین پر 2012 میں ہی 684 میل پائپ لائن بچھانے کا ڈھانچہ مکمل کر لیا تھا جبکہ پاکستان نے اپنے 485 میل کے حصے پر ابھی کام بھی شروع نہیں کیا ہے۔

اندازہ ہے کہ توانائی کے ذخائر سے مالا مال لیکن امریکی اور مغربی پابندیوں سے نبرد آزما ایران اس پائپ لائن کے ذریعہ 24 کروڑ آبادی کے پاکستان کو روزانہ 750 ملین سے 1 بلین کیوبک فٹ تک قدرتی گیس فراہم کر سکتا ہے۔

خبروں کے مطابق تہران نے اسلام آباد کو معاہدے کے طویل عرصہ سے التوا کا شکار ہونے پر پیرس کی عالمی ثالثی عدالت میں لے جانے کے ارادے سے متنبہ کیا ہے۔

بعض رپورٹس کے مطابق پاکستان پر اس منصوبے پر عمل درآمد نہ کرنے پر 18 ارب ڈالر تک کا جرمانہ عائد ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان کے وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے جرمانے کی اس رقم کے بارے میں رپورٹس کو مسترد کردیا ہے۔

ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:30 0:00

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اس تنازعہ کے قابل عمل حل کے لیے اسلام آباد تہران کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔

اسی دوران امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بار پھر ملکوں کو ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی لین دین کے معاملے پر پابندیوں کے بارے میں خبر دار کیا ہے۔ ترجمان میتھیو ملر نے یہ بھی کہا کہ امریکہ پاکستان کی توانائی کے شعبے میں مدد کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی طرف سے پائپ لائن کے معاملے پر پس و پیش سے کام لینے کی وجوہات میں ایران کے ساتھ تجارت کے نتیجے میں ملکوں پر امریکی پابندیوں کے اطلاق کا خدشہ اور دباؤ ایک بڑی وجہ ہے۔ دوسری وجوہات میں حکومتی عمل داری کے مسائل ، کئی حکومتوں کا پاکستان کے توانائی کے بحران کی شدت کو نظر انداز کرنا اور اندرونی عدم استحکام بھی شامل ہیں۔

اس صورت حال میں جب پاکستان کی معیشت بیک وقت کئی گھمبیر مسائل کا شکار ہے اور اس کے توانائی کے اپنے ذخائر بھی کم ہوتے جارہے ہیں، اسلام آباد کے پاس ایران کی ثالثی کے انتباہ کے بعد کیا راہیں ہیں؟

ریاست واشنگٹن میں سیاٹل یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈاکٹر طیب محمود کہتے ہیں کہ دو ملکوں کا کسی تصفیہ طلب مسئلے پر ثالثی عدالت میں جا نا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور پاکستان کئی بار اس عمل میں شامل رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں جو آپشنز میسر ہیں ان میں ایک راہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان ایران سے اس معاملے پر بات چیت کرتا رہے ۔ لیکن اس راہ کا دار و مدار تہران پر ہوگا کہ وہ اسے کیسے دیکھتا ہے۔

دوسرا آپشن ایک دشوار راہ ہے جس میں پاکستان کو بہت سنجیدہ کوشش کرنا ہو گی کہ وہ امریکہ سے تعلقات، مغرب کی طرف سے جاری تجارتی رعائتیں، اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور عوام کو در پیش مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیسے ایک درمیانی راہ نکالتا ہے۔

تاہم، ڈاکٹر طیب محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس کے لیے پاکستان کو نہ صرف حالات کا نفع اور نقصان کے میزان پر جائزہ لینا ہوگا بلکہ بہت سی معاشی اصلاحات کرنا ہوں گی۔

"میں تو کہتا ہے کہ پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، چاہے وہ بلوچستان کے حالات ہوں، مہنگائی کا مسئلہ ہو یا دوسرے ملکوں پر بے جا انحصار کا معاملہ ہو، عدم استحکام ہو، ہر مسئلہ کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کے توانائی کے بحران سے جڑا ہوا ہے۔"

اس سوال پر کہ کیا پاکستان ایسا سیاسی اور سفارتی کام انجام دے پائے گا وہ کہتے ہیں کہ پاکستان آخر کب تک اس حقیقت کو کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھے گا کہ اس کی توانائی کے مسئلے کا حل اس کے خطے میں ہی ہے۔

اپنے نقطے کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے، اس حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا ہے۔ ایران کے پاس انرجی کے وسائل ہیں اور پاکستان کو انرجی کی ضرورت ہے۔ ایران پاکستان میں استحکام بھی چاہتا ہے۔

"اگر اس گیس پائب لائن کے منصوبے کو مستقبل پر نگاہ رکھ کے دیکھا جائے تو ہمارا دوسرا ہمسایہ ملک بھارت ہے جو تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اس کی توانائی کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کو بھارت تک لے جا کر ذرمبادلہ کما سکتا ہے اور حالات بہتری کی جانب جا سکتے ہیں۔"

لیکن، ڈاکٹر طیب محمود زور دیتے ہیں کہ اس کے لیے پاکستان کو بہت سا ہوم ورک کرنا ہو گا جس میں اپنے آپ کو ایک دیرپا ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے معیشت کے شعبے میں دور رس اصلاحات شامل ہیں جو اسے دوسرے ملکوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر بہت زیادہ انحصار سے بچائیں۔

"سوال صرف توانائی کا نہیں ہے، یہ سوال پاکستان کے لیے ایک بڑا سوال ہے، اور وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اس بحران کو اپنے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرے گا یا نہیں۔"

کیا پاکستان امریکہ سے استثنیٰ حاصل کر پائے گا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے التوا میں ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کے باوجود اس معاملے پر استثنیٰ حاصل کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی اور کسی مستقل حل کی بجائے توانائی کے عارضی حل تلاش کر تا رہا ہے ۔

وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے اس سال مارچ میں کہا تھا کہ پاکستان کی معیشت ایران گیس پائپ لائن کے منصوبہ پر امریکی پابندیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ پاکستان اس سلسلے میں امریکہ سے ایران کے ساتھ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی اور مشرق وسطی کے امور کے ماہر اور ایران پر تحقیق کرنے والے ادارے پولی ٹیکٹ کے سربراہ عارف انصار کہتے ہیں کہ جب لوگ ایران سے تجارت کے لیے بھارت، روس اور چین کی مثال دیتے ہیں تو یہ بات ضرور سامنے رکھنی چاہیے کہ ان ملکوں کے اقتصادی حالات پاکستان سے کہیں بہتر ہیں اور وہ آزادا خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو انہیں نہیں لگتا کہ اس نے امریکہ کے ساتھ پائپ لائن منصوبے پر کوئی مربوط کوشش کی ہے۔

"مجھے لگتا ہے کہ پاکستان اس معاملے پر اب بھی تذبذب کا شکار ہے، اور فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ اس مسئلے پر اسے واضح طور پر دو ٹوک انداز میں قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ اب تک پاکستان نے ایران گیس پائپ لائن پر جو پوزیشن لی ہے وہ وقت گزارنے کی ہے اور اب بھی وہ وقت خریدنے کی کوشش کرے گا۔"

عارف انصار کے بقول پاکستان اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ۔ لہذا اس کی بات میں وزن بہت کم ہے۔

ڈاکٹر طیب محمود بھی اس ضمن میں کوئی زیادہ روشن امکانات نہیں دیکھتے۔

دو بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن کی تلاش

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی یہ بات بلکل جائز ہے کہ اسے اپنے ہمسائے اور سی پیک راہ داری میں اربوں ڈالر کے سرمایہ کار چین اور تاریخی شراکت دار امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے چاہیں۔

عارف انصار کہتے ہیں کہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان نے کسی حد تک امریکہ اور چین کے تعلقات میں توازن برقرار رکھا ہے اور ملک کی خطے میں اہمیت بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے یوکرین جنگ کے شروع ہونے سے ایک روز قبل ماسکو کے دورے اور اس کے پاک امریکہ تعلقات پر مضمرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، " مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان امریکہ اور مغرب پر یہ ظاہر کرنے کی بہت زیادہ کوشش کر رہا ہے کہ اسلام آباد ان کے ساتھ ہے۔"

ڈاکٹر طیب محمود کہتے ہیں کہ چین اور امریکہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن پاکستان کو یہ سوچنا ہے کہ آخر کب تک وہ پنگ پانگ کے اس کھیل تک محدود رہے گا اور اپنے مسائل اور لوگوں کی تکالیف کا مداوا نہیں کرے گا۔

ان کی نظر میں پاکستان کو نہ صرف اقتصادی اصلاحات کرنی ہوں گی جو اسے آئی ایم ایف پر انحصار سے بچائیں بلکہ ایک متحرک اور موثر سفارتکاری سے کام لینا ہوگا جس کا پاکستان اس وقت مظاہرہ نہیں کر رہا۔

"سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے مفاد اور ان تمام پہلووں پر نظر رکھتے ہوئے تدبر سے کام لے گا۔ کیا پاکستان گیس پائپ لائن کو دوراہے پر موجود ایک موقع سمجھے گا اور مستقبل کے لیے ایک ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے ایک بہتر سمت جانے کے لیے قدم اٹھائے گا؟"ڈاکٹر طیب محمود نے کہا۔

فورم

XS
SM
MD
LG